آج کی تیز رفتار دنیا میں، جہاں ہر کوئی اپنی دوڑ میں مصروف ہے، کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اندر سے کہیں ٹوٹ رہے ہیں۔ بڑھتا ہوا تناؤ، اضطراب اور تنہائی اکثر ہمارے دل و دماغ کو گھیرے رکھتی ہے۔ ایسے میں، کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ حقیقی سکون اور خوشی کہاں مل سکتی ہے؟ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ اس کا جواب صدیوں پرانی حکمت میں پوشیدہ ہے، خاص طور پر بدھ مت میں بیان کردہ “ایثارانہ رویہ” یعنی دوسروں کی بھلائی میں۔میں نے جب غور کیا تو سمجھ آیا کہ بدھ مت کا یہ فلسفہ محض ایک مذہبی تعلیم نہیں بلکہ زندگی گزارنے کا ایک عملی طریقہ ہے۔ خاص کر کرُنا (دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنا) اور میتّا (سب کے لیے محبت بھری مہربانی) کے اصول ہمارے ذہنی سکون کے لیے کسی دوا سے کم نہیں۔ میری اپنی زندگی میں بھی، جب میں نے بے لوث ہو کر دوسروں کی مدد کرنے کی کوشش کی، تو ایک ایسا اطمینان ملا جس کی کوئی قیمت نہیں۔ تحقیق بھی یہی بتاتی ہے کہ مہربانی اور سخاوت ہمارے دماغ میں خوشی کے ہارمونز پیدا کرتی ہے، جو نہ صرف ہمارے موڈ کو بہتر بناتے ہیں بلکہ ہمیں تنہائی کے احساس سے بھی نکالتے ہیں۔ یہ صرف دوسروں کو ہی نہیں بلکہ خود ہمیں بھی سکون اور تعلق کا احساس دلاتے ہیں۔یہ تو ایسی چیز ہے جو آج کی دنیا میں ہم سب کو بہت ضرورت ہے۔ آئیے، اس سے جڑے مزید گہرے راز اور اس کے ہماری زندگی پر پڑنے والے حیرت انگیز اثرات کے بارے میں تفصیل سے جانتے ہیں۔
دوسروں کی بھلائی میں اپنی خوشی تلاش کرنا
بے لوث خدمت سے ملنے والا سکون
آج کل کی بھاگ دوڑ والی زندگی میں، ہر کوئی اپنی دھن میں مگن ہے، اور کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے سکون صرف ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ مگر میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ جب آپ دوسروں کے لیے کچھ اچھا کرتے ہیں، تو ایک عجیب سا اطمینان اور خوشی ملتی ہے جو کسی اور چیز سے نہیں ملتی۔ میں نے خود کئی بار آزمایا ہے کہ جب میں نے کسی کی بے لوث مدد کی، چاہے وہ چھوٹی سی بات ہی کیوں نہ ہو، میرے اندر ایک مثبت توانائی بھر گئی اور میری اپنی پریشانیاں کہیں گم ہو گئیں۔ یہ محض ایک جذبہ نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے۔ جب ہم کسی غریب کو کھانا کھلاتے ہیں، کسی پریشان حال دوست کو سنتے ہیں، یا کسی بزرگ کی مدد کرتے ہیں، تو ہمارے دماغ میں ڈوپامائن اور سیروٹونن جیسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو خوشی اور سکون کا احساس دلاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں ایک اولڈ ایج ہوم میں رضاکارانہ طور پر گیا تھا، وہاں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر مجھے لگا جیسے میری اپنی ساری تھکن دور ہو گئی ہو۔ یہ احساس دل کو چھو جاتا ہے اور ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ زندگی صرف خود کے لیے جینے کا نام نہیں۔ یہ تعلق اور اپنائیت کا ایسا رشتہ بناتا ہے جو ہمیں تنہائی کے بھنور سے نکال کر ایک بھرپور زندگی کی طرف لے جاتا ہے۔
نفسیاتی اور جذباتی فوائد
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ جب آپ کسی مشکل میں پھنسے شخص کی مدد کرتے ہیں، تو آپ کی اپنی پریشانیاں ہلکی ہو جاتی ہیں؟ یہ بالکل ایسا ہی ہے! میرے نزدیک یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے۔ جب ہم دوسروں کے دکھ درد کو اپنا سمجھتے ہیں اور ان کے لیے کچھ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں، تو ہمارا فوکس اپنی ذات سے ہٹ کر دوسروں پر چلا جاتا ہے۔ اس سے ہماری اپنی چھوٹی موٹی الجھنیں اور پریشانیاں کم اہم لگنے لگتی ہیں۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس سے ہمارا دماغ مثبت سوچ کی طرف مائل ہوتا ہے اور منفی خیالات سے نجات ملتی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ ایک قسم کی تھراپی ہے جو ہمارے موڈ کو بہتر بناتی ہے اور ہمیں زیادہ پُرامید اور خوش باش بناتی ہے۔ اضطراب اور ڈپریشن جیسی کیفیات میں مبتلا افراد کے لیے یہ خاص طور پر فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ کئی تحقیقات بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ دوسروں کی مدد کرنے سے انسان کی ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے، خود اعتمادی بڑھتی ہے، اور زندگی کا مقصد واضح ہوتا ہے۔ یہ ہمیں اپنے اندر چھپی ہوئی طاقت اور قابلیت کا احساس دلاتا ہے جو شاید ہم نے کبھی سوچی بھی نہ ہو۔
دُکھ درد کو سمجھنے اور سکھ بانٹنے کا ہنر
ہمدردی کی طاقت
ہمدردی ایک ایسی طاقت ہے جو ہمیں انسان بناتی ہے۔ میرے خیال میں، جب ہم کسی دوسرے کے جوتے میں پاؤں رکھ کر سوچتے ہیں، تب ہی ہمیں اصل انسانیت کا ادراک ہوتا ہے۔ کسی کی خاموشی کو سمجھنا، اس کے بنا کہے دکھ کو محسوس کرنا، اور پھر اس کے لیے کچھ کرنا، یہ سب ہمدردی کی ہی مختلف شکلیں ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب آپ کسی کے ساتھ سچی ہمدردی دکھاتے ہیں، تو ایک ان دیکھی ڈور سے آپ اس شخص سے جُڑ جاتے ہیں۔ یہ صرف الفاظ کی حد تک نہیں رہتی بلکہ عمل میں ڈھل جاتی ہے۔ اگر آپ کسی کو روتا ہوا دیکھیں اور صرف اس کے آنسو پونچھ دیں، تو آپ نے اس کے دل پر ایک گہرا اثر چھوڑ دیا ہے۔ یہ ہماری اندرونی دنیا کو وسعت بخشتا ہے اور ہمیں تنگ نظری سے نکال کر وسیع القلبی کی طرف لے جاتا ہے۔ میری اپنی زندگی میں، ہمدردی نے مجھے بہت کچھ سکھایا ہے۔ اس نے مجھے سکھایا کہ ہر شخص اپنی ایک کہانی لیے پھر رہا ہے، اور کبھی کبھی صرف سننے والا کان ہی اس کی سب سے بڑی دوا ہوتا ہے۔ یہ ہمیں دنیا کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا موقع دیتی ہے، جہاں ہم صرف اپنے مفادات کے پیچھے بھاگنے کے بجائے دوسروں کے لیے بھی سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔
مہربانی کی لہر
مہربانی ایک ایسی لہر ہے جو صرف ایک شخص تک محدود نہیں رہتی بلکہ پھیلتی چلی جاتی ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ کسی ایک پر مہربانی کرتے ہیں، تو وہ شخص آگے کسی اور پر مہربانی کرتا ہے، اور یوں یہ سلسلہ چل نکلتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے کسی تالاب میں ایک پتھر پھینکیں تو لہریں دور دور تک پھیل جاتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں ایک مشکل صورتحال سے گزر رہا تھا، اور ایک اجنبی نے میری مدد کی۔ اس کی یہ مہربانی آج بھی مجھے یاد ہے اور اس نے مجھے سکھایا کہ دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا کتنا ضروری ہے۔ اس واقعے کے بعد سے میں نے بھی کوشش کی ہے کہ جب بھی موقع ملے، میں دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آؤں۔ یہ صرف دینے والے کو ہی خوشی نہیں دیتی بلکہ لینے والے کو بھی ایک نئی امید بخشتی ہے۔ مہربانی سے بھرے اعمال ایک ایسا مثبت ماحول پیدا کرتے ہیں جہاں لوگ ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں، ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں، اور ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی مہربانیاں ہی ہیں جو ہمارے معاشرے کو رہنے کے لیے ایک بہتر جگہ بناتی ہیں۔ یہ دکھاتی ہیں کہ ہم سب آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔
تناؤ اور اضطراب سے نجات کا راستہ
ذہن کو پرسکون کرنے کی ترکیبیں
آج کے دور میں تناؤ اور اضطراب ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں، مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ دوسروں کی بھلائی میں ہمارے ذہنی سکون کا ایک بڑا راز چھپا ہے؟ میرے تجربے میں، جب میں نے اپنا دھیان اپنی پریشانیوں سے ہٹا کر کسی اور کی مدد پر مرکوز کیا، تو میرے اندر ایک حیرت انگیز سکون پیدا ہوا۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے آپ کسی ٹھنڈے چشمے کا پانی پی لیں جب آپ کو بہت پیاس لگی ہو۔ دوسروں کے لیے نیک نیتی سے کام کرنا ایک قسم کی ذہنی مراقبہ (meditation) ہے۔ جب ہم کسی کی مدد کرتے ہیں تو ہمارا ذہن فضول کی سوچوں سے ہٹ جاتا ہے اور ایک مثبت سرگرمی میں مشغول ہو جاتا ہے۔ یہ ہمارے اندر سے منفی جذبات، جیسے غصہ، حسد، اور مایوسی کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب میں کسی بے سہارا کی مدد کرتا ہوں تو مجھے ایک اندرونی خوشی محسوس ہوتی ہے جو دن بھر کے تناؤ کو کم کر دیتی ہے۔ یہ ہمارے اعصابی نظام کو پرسکون کرتا ہے اور ہمیں بہتر نیند بھی فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ ہمیں اپنے مسائل کو ایک وسیع تناظر میں دیکھنے میں مدد دیتا ہے، جس سے وہ اتنے بڑے اور ناقابل حل نہیں لگتے جتنے پہلے لگ رہے ہوتے ہیں۔
سماجی تعلقات کا مضبوط ہونا
ہم انسان سماجی مخلوق ہیں، اور ہمیں دوسروں کے ساتھ تعلقات کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ دوسروں کی بھلائی کے ذریعے ہمارے سماجی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور یہ تنہائی کے احساس کو دور کرتا ہے۔ میں نے یہ بارہا دیکھا ہے کہ جب آپ کسی کی مدد کرتے ہیں، تو ایک رشتہ بن جاتا ہے۔ یہ رشتہ محض رسمی نہیں ہوتا بلکہ ایک گہرے تعلق کی بنیاد بنتا ہے۔ اس سے آپ کے دوستوں اور احباب کا حلقہ وسیع ہوتا ہے اور آپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ اکیلے نہیں ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے اپنی سوسائٹی میں ایک صفائی مہم چلائی تھی تو بہت سے نئے لوگ میرے ساتھ جڑ گئے تھے اور آج بھی وہ میرے اچھے دوست ہیں۔ اس طرح کے تعلقات ہمیں جذباتی سہارا دیتے ہیں جو تناؤ اور اضطراب سے نمٹنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ جب ہمیں یہ پتہ ہوتا ہے کہ ہمارے ارد گرد ایسے لوگ ہیں جو ہماری پرواہ کرتے ہیں اور ہماری مدد کے لیے تیار ہیں، تو زندگی کی مشکلات آسان لگنے لگتی ہیں۔ یہ اعتماد اور بھروسے کا ایک ایسا جال بناتا ہے جس میں ہم سب محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
| فائدہ | تفصیل |
|---|---|
| ذہنی سکون | دوسروں کی مدد سے دماغ میں خوشی کے ہارمونز کا اخراج، تناؤ میں کمی۔ |
| بہتر موڈ | مثبت سرگرمیوں سے منفی سوچوں کا خاتمہ، ہنسی خوشی کا احساس۔ |
| سماجی تعلقات | نئے لوگوں سے مضبوط رشتے، تنہائی کا خاتمہ، جذباتی سہارا۔ |
| خود اعتمادی | اپنی صلاحیتوں کا ادراک، مقصدیت کا احساس، اندرونی طاقت میں اضافہ۔ |
اندرونی تبدیلی اور ذاتی ارتقاء
خود شناسی کا سفر
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب آپ دوسروں کے لیے کچھ کرتے ہیں تو آپ کو اپنے بارے میں کتنا کچھ پتہ چلتا ہے؟ میرے نزدیک، ایثارانہ رویہ ایک خود شناسی کا سفر ہے۔ جب ہم دوسروں کی ضروریات کو سمجھتے ہیں اور ان کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہم اپنے اندر چھپی ہوئی خوبیوں اور خامیوں کو بھی پہچانتے ہیں۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم کتنے لچکدار ہیں، کتنے ہمدرد ہیں، اور کتنی طاقت ہمارے اندر موجود ہے جو ہم نے کبھی دریافت ہی نہیں کی۔ میں نے خود محسوس کیا ہے کہ جب میں کسی مشکل میں پھنسے شخص کی مدد کرتا ہوں تو مجھے اپنی حدود اور اپنی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ ہمیں اپنے حقیقی مقاصد اور اپنی اقدار کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ کئی بار تو ایسا ہوتا ہے کہ دوسروں کی مدد کرتے ہوئے ہمیں اپنے ہی کسی مسئلے کا حل مل جاتا ہے۔ یہ ہمیں ایک بہتر انسان بننے کی ترغیب دیتا ہے، ایک ایسا انسان جو صرف اپنی ذات تک محدود نہ ہو بلکہ ایک وسیع تر دنیا کا حصہ بنے۔ یہ سفر ہمیں خود غرضی سے نکال کر سخاوت اور بے لوث محبت کی طرف لے جاتا ہے، جہاں ہم اپنے حقیقی ‘میں’ سے ملتے ہیں۔
زندگی کا نیا معنی
ہم میں سے بہت سے لوگ زندگی میں معنی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ میرا پکا یقین ہے کہ دوسروں کی بھلائی میں زندگی کا حقیقی معنی پنہاں ہے۔ جب آپ صرف اپنے لیے جیتے ہیں تو زندگی اکثر خالی خالی لگتی ہے۔ مگر جب آپ اپنی زندگی کا کچھ حصہ دوسروں کے لیے وقف کرتے ہیں، تو زندگی ایک نیا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی سالگرہ پر ایک یتیم خانے میں کھانا کھلایا تھا۔ وہاں کے بچوں کے چہروں پر جو خوشی تھی، اسے دیکھ کر مجھے لگا جیسے میری زندگی کا مقصد پورا ہو گیا ہو۔ یہ لمحہ مجھے آج بھی یاد ہے اور اس نے مجھے زندگی کا ایک نیا معنی دیا۔ یہ ہمیں ایک بڑے مقصد سے جوڑتا ہے، ایک ایسا مقصد جو ہماری ذات سے کہیں بڑا ہوتا ہے۔ یہ ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ہم صرف ایک چھوٹے سے ذرے نہیں ہیں بلکہ ایک عظیم کائنات کا اہم حصہ ہیں۔ یہ ہمیں زندگی کے نشیب و فراز میں ثابت قدم رہنے کی ہمت دیتا ہے اور ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ حقیقی خوشی دینے میں ہے، لینے میں نہیں۔ یہ ہماری روح کو تسکین بخشتا ہے اور ہمیں ایک ایسی اندرونی دولت سے مالا مال کرتا ہے جو مادی دولت سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔
عملی زندگی میں ایثارانہ رویے کو کیسے اپنائیں؟
چھوٹے قدموں سے بڑی تبدیلیاں
کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ دوسروں کی مدد کرنے کے لیے بہت بڑا کام کرنا ضروری ہے۔ مگر میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے بھی بڑی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ ہمیں ہمیشہ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم صرف مالی طور پر ہی کسی کی مدد کر سکتے ہیں۔ ایک مسکراہٹ، ایک اچھا لفظ، کسی کا ہاتھ تھام لینا، یہ سب بھی ایثارانہ رویے کی مثالیں ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب میں نے اپنے کسی پڑوسی کو کھانے کی ایک پلیٹ بھیجی تو اس کے چہرے پر کتنی خوشی آئی۔ یا جب میں نے کسی پریشان دوست کو صرف غور سے سنا تو اسے کتنا سکون ملا۔ یہ چھوٹے چھوٹے اقدامات ہمارے روزمرہ کے معمولات میں آسانی سے شامل کیے جا سکتے ہیں۔ کسی اجنبی کی مشکل میں مدد کرنا، بزرگوں کے لیے راستہ چھوڑ دینا، یا کسی جانور کو پانی پلانا، یہ سب ہماری زندگی میں مہربانی کا عنصر شامل کرتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے بارش کا ایک ایک قطرہ مل کر دریا بنا دیتا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہر چھوٹی نیکی اہمیت رکھتی ہے اور اس کا اثر دور رس ہوتا ہے۔ اس سے ہماری اپنی شخصیت میں بھی مثبت نکھار آتا ہے اور ہم زیادہ اطمینان محسوس کرتے ہیں۔
روزمرہ کی زندگی میں مہربانی
مہربانی کو اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔ یہ صرف ایک سوچ اور ارادے کی بات ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں یہ اصول اپنایا ہے کہ جب بھی مجھے موقع ملے، میں دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آؤں۔ چاہے وہ کسی دکاندار سے اچھی طرح بات کرنا ہو، یا کسی ٹریفک میں پھنسے شخص کی مدد کرنا ہو۔ صبح اٹھتے ہی اپنے گھر والوں کے ساتھ پیار سے پیش آنا اور ان کے لیے کچھ اچھا کرنا بھی مہربانی کی ایک شکل ہے۔ دفتر میں اپنے کولیگز کی مدد کرنا، انہیں مشکل وقت میں سہارا دینا، یہ سب بھی اس رویے کا حصہ ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے اپنی ایک کولیگ کو اس کے مشکل پروجیکٹ میں مدد دی تھی، اور اس کا شکریہ ادا کرنے کا طریقہ آج بھی میرے دل میں بسا ہوا ہے۔ اس نے نہ صرف میرا وقت بچایا بلکہ مجھے بھی اندرونی خوشی کا احساس دلایا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مہربانی ایک متعدی چیز ہے، یہ ایک سے دوسرے تک پھیلتی ہے اور ایک مثبت ماحول پیدا کرتی ہے۔ یہ ہمارے اندر سے نفرت، حسد اور مقابلہ بازی کے احساسات کو کم کرتی ہے اور ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔
مضبوط اور پرامن معاشرے کی بنیاد
اجتماعی خوشحالی کا راز
اگر ہم ایک مضبوط اور پرامن معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں اجتماعی خوشحالی کے لیے کام کرنا ہو گا۔ میرا ماننا ہے کہ ایثارانہ رویہ ہی اس کی بنیاد ہے۔ جب ہر فرد صرف اپنی ذات کے بجائے پورے معاشرے کی بھلائی کے لیے سوچے گا تو ہی ہم حقیقی خوشحالی حاصل کر سکتے ہیں۔ مجھے یہ بات آج بھی یاد ہے کہ ہمارے محلے میں جب کسی کے گھر میں مشکل آتی تھی تو پورا محلہ اس کی مدد کے لیے کھڑا ہو جاتا تھا۔ اس وقت مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ باہمی تعاون اور ایثار ہی ہے جو کسی بھی معاشرے کو مضبوط بناتا ہے۔ اگر ہر شخص یہ سوچے کہ اس کا تھوڑا سا حصہ بھی کسی اور کی زندگی میں فرق پیدا کر سکتا ہے، تو ہم بہت سی سماجی برائیوں پر قابو پا سکتے ہیں۔ غربت، جہالت اور ناانصافی جیسے مسائل کا حل اسی اجتماعی سوچ میں ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم سب ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر ہمارا وجود نامکمل ہے۔ یہ معاشرتی ہم آہنگی پیدا کرتا ہے، جہاں لوگ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں، ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ چلتے ہیں۔
نسلوں تک پھیلتی مثبت سوچ

ایثارانہ رویہ صرف موجودہ نسل کے لیے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک بہترین تحفہ ہے۔ میرا تو یہ یقین ہے کہ جب ہم اپنے بچوں کو دوسروں کی بھلائی کرنا سکھاتے ہیں تو ہم انہیں ایک بہتر مستقبل کی بنیاد فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔ بچے بڑوں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ اگر وہ اپنے والدین کو دوسروں کی مدد کرتے، مہربانی دکھاتے اور سخاوت کرتے دیکھیں گے تو وہ بھی اسی راستے پر چلیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ میری والدہ ہمیشہ ہمیں کہتی تھیں کہ “جو کچھ بھی آپ کے پاس ہے، اس میں سے تھوڑا سا دوسروں کے ساتھ بانٹنا سیکھو۔” یہ نصیحت آج بھی میرے ساتھ ہے اور میں اپنے بچوں کو بھی یہی سکھاتا ہوں۔ یہ مثبت سوچ ایک نسل سے دوسری نسل تک پھیلتی ہے اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتی ہے جہاں ہمدردی، محبت اور تعاون عام ہوتا ہے۔ یہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ حقیقی طاقت دوسروں کو اٹھانے میں ہے، گرانے میں نہیں۔ یہ معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دیتا ہے اور ہمیں ایک ایسا ورثہ فراہم کرتا ہے جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کے لیے جیتا ہے۔
بات ختم کرتے ہوئے
آج کی اس لمبی لیکن بہت ہی دِلچسپ گفتگو کا مقصد آپ کو یہ باور کرانا تھا کہ حقیقی خوشی صرف اپنی ذات میں مگن رہنے میں نہیں بلکہ دوسروں کی بھلائی میں اپنی خوشی تلاش کرنے میں ہے۔ جب ہم کسی دوسرے انسان کے لیے، چاہے وہ کوئی چھوٹا سا کام ہی کیوں نہ ہو، کچھ اچھا کرتے ہیں تو ایک انمول سکون اور اطمینان ملتا ہے جو کسی بھی دنیاوی چیز سے کہیں زیادہ قیمتی اور دیرپا ہوتا ہے۔ میرا تو یہی پکا یقین اور دعا بھی ہے کہ ہم سب اپنی زندگی میں مہربانی، ایثار اور ہمدردی کو زیادہ سے زیادہ شامل کریں، کیونکہ اسی میں ہمارے دل کا سکون، ہماری روح کی تسکین اور پورے معاشرے کی حقیقی فلاح پنہاں ہے۔ یہ راستہ آسان نہیں، مگر اس کا انجام بہت میٹھا ہے۔
جاننے کے لیے مفید معلومات
1. چھوٹی نیکیوں سے آغاز کریں: آپ کو کوئی بہت بڑا خیراتی ادارہ بنانے کی ضرورت نہیں، بس اپنے ارد گرد چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر دھیان دیں۔ کسی کو دیکھ کر مسکرا دینا، مشکل میں پھنسے شخص کا حال پوچھ لینا، یا کسی بزرگ کو سڑک پار کروانا بھی بہت بڑی نیکی ہے اور اس کا اثر آپ کے دل پر حیرت انگیز ہوتا ہے۔
2. غور سے سننا سیکھیں: کبھی کبھی کسی کی پریشانی کو صرف غور سے، ہمدردی کے ساتھ سن لینا ہی اس کی سب سے بڑی مدد ہوتی ہے۔ لوگ اکثر مشورہ نہیں، بس ایک سننے والا کان چاہتے ہیں، جہاں وہ اپنا دکھ بانٹ سکیں۔ یہ آپ کے تعلقات کو بھی مضبوط کرتا ہے۔
3. رضاکارانہ کام کریں: اگر آپ کے پاس وقت ہے تو اپنے علاقے میں موجود کسی رفاہی ادارے، یتیم خانے، یا اولڈ ایج ہوم میں رضاکارانہ طور پر حصہ لیں۔ وہاں کے لوگوں کے چہروں پر خوشی لانا آپ کو ایک ایسا سکون دے گا جو ناقابلِ بیان ہے۔ یہ خود شناسی کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے۔
4. اپنی صلاحیتیں بانٹیں: ہر انسان میں کوئی نہ کوئی ہنر یا صلاحیت ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی ہنر ہے تو اسے دوسروں کی مدد کے لیے استعمال کریں۔ جیسے کسی غریب بچے کو مفت پڑھا دینا، کسی خاتون کو سلائی یا کڑھائی سکھا دینا، یا کسی کو اس کے کاروبار کے لیے صحیح مشورہ دینا۔ یہ آپ کے لیے بھی فخر کا باعث بنے گا۔
5. مہربانی کو عادت بنائیں: مہربانی کو اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔ اسے اپنی فطرت ثانیہ بنا لیں۔ جب بھی موقع ملے، دوسروں کے ساتھ اچھے سے پیش آئیں، ان کی مدد کریں، اور ان کے لیے دعا کریں۔ یہ صرف آپ کو ہی نہیں بلکہ آپ کے آس پاس کے ماحول کو بھی مثبت بنا دے گا۔
اہم نکات کا خلاصہ
آج کی اس بھرپور گفتگو سے ہم نے یہ جانا کہ دوسروں کی بھلائی میں دراصل ہماری اپنی خوشی اور ذہنی سکون پنہاں ہے۔ یہ ایثارانہ عمل نہ صرف ہماری ذاتی زندگی میں سکون اور اطمینان لاتا ہے بلکہ ہمارے سماجی تعلقات کو بھی حیرت انگیز طور پر مضبوط بناتا ہے۔ جب ہم دوسروں کی مدد کرتے ہیں تو ہم تناؤ اور اضطراب سے نجات پاتے ہیں اور ہماری ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے۔ یہ سفر ہمیں خود شناسی اور ذاتی ارتقاء کی طرف لے جاتا ہے، جہاں ہم زندگی کے حقیقی معنی کو سمجھ پاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر، مہربانی اور ہمدردی کی یہ لہر صرف موجودہ نسل تک محدود نہیں رہتی بلکہ آنے والی نسلوں تک پھیل کر ایک مضبوط اور پرامن معاشرے کی بنیاد رکھتی ہے۔ یاد رکھیں، ایک چھوٹا سا عمل بھی بہت بڑا فرق ڈال سکتا ہے۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: بدھ مت میں “ایثارانہ رویہ” کیا ہے اور یہ ہماری آج کی زندگی میں کیوں ضروری ہے؟
ج: ایثارانہ رویہ دراصل بدھ مت کا ایک بنیادی اصول ہے جس میں دوسروں کی بھلائی اور خوشی کو اپنی ذاتی خواہشات پر ترجیح دینا سکھایا جاتا ہے۔ اس کے دو اہم پہلو ہیں: “کرُنا” یعنی دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنا اور اسے دور کرنے کی خواہش رکھنا، اور “میتّا” یعنی تمام جانداروں کے لیے بے لوث محبت اور مہربانی رکھنا، بغیر کسی شرط کے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ آج کی تیز رفتار اور خود غرض دنیا میں جہاں ہر کوئی صرف اپنی کامیابیوں اور مفادات کے پیچھے بھاگ رہا ہے، ایثارانہ رویہ اپنانا ذہنی سکون کا ایک ذریعہ ہے۔ جب میں نے خود یہ سوچنا شروع کیا کہ میں دوسروں کے لیے کیا اچھا کر سکتا ہوں، تو مجھے اپنی ذاتی پریشانیاں بہت چھوٹی لگنے لگیں۔ اس سے ایک مثبت توانائی ملتی ہے جو تناؤ اور اضطراب کو کم کرتی ہے اور آپ کو زیادہ مطمئن اور پرسکون محسوس کرواتی ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو اندرونی طور پر مضبوط بناتا ہے اور تعلقات میں گرمجوشی پیدا کرتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں، یہ وہ بنیاد ہے جس پر ایک خوشگوار اور پرامن معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔
س: ہم اپنی روزمرہ کی مصروف زندگی میں “کرُنا” اور “میتّا” کے اصولوں کو کیسے اپنا سکتے ہیں؟
ج: روزمرہ کی زندگی میں کرُنا اور میتّا کو اپنانا بالکل بھی مشکل نہیں ہے، بس تھوڑی سی نیت اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے خود یہ آسان طریقے اپنا کر دیکھے ہیں اور مجھے حیرت انگیز نتائج ملے ہیں۔ سب سے پہلے، صبح اٹھ کر خود کو اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو محبت بھری دعائیں دیں، ان کی خوشی اور سکون کی خواہش کریں۔ یہ “میتّا” کی ایک سادہ سی مشق ہے جو آپ کے دن کا آغاز ایک مثبت سوچ کے ساتھ کرتی ہے۔ پھر، جب آپ دن بھر کے کاموں میں مصروف ہوں تو چھوٹی چھوٹی چیزوں میں کرُنا دکھائیں۔ مثال کے طور پر، کسی کی بات کو غور سے سنیں، کسی مشکل میں پھنسے دوست یا ساتھی کی مدد کریں، یا کسی اجنبی کو دیکھ کر مسکرا دیں۔ کبھی کبھی سڑک پر کسی کی مدد کر دینا، یا پڑوسی کے کسی چھوٹے کام میں ہاتھ بٹا دینا بھی کافی ہوتا ہے۔ یہ عمل آپ کے دل میں ہمدردی پیدا کرتا ہے اور آپ کو دوسروں سے جڑا ہوا محسوس کرواتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے ایک دفعہ ایک بزرگ کو سڑک پار کروائی تھی، تو ان کی مسکراہٹ نے مجھے سارا دن خوش رکھا تھا۔ یہ چھوٹے چھوٹے اعمال ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم سب آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کا سہارا بن سکتے ہیں۔
س: ایثارانہ رویہ اختیار کرنے سے ہماری ذہنی اور جذباتی صحت پر کیا مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
ج: ایثارانہ رویہ اپنانا صرف دوسروں کے لیے ہی فائدہ مند نہیں، بلکہ یہ ہماری اپنی ذہنی اور جذباتی صحت کے لیے ایک بہترین دوا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی محسوس کیا ہے، اور تحقیق بھی یہی بتاتی ہے کہ جب ہم دوسروں کی بھلائی کے لیے کام کرتے ہیں تو ہمارے دماغ میں “اینڈورفنز” جیسے خوشی کے ہارمونز پیدا ہوتے ہیں، جو ہمارے موڈ کو بہتر بناتے ہیں اور ڈپریشن و اضطراب کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب میں کسی کی مدد کرتا ہوں تو مجھے ایک گہرا سکون اور اطمینان ملتا ہے، جیسے دل پر سے کوئی بوجھ اتر گیا ہو۔ یہ عمل ہمیں تنہائی کے احساس سے نکالتا ہے اور دوسروں سے جڑا ہوا محسوس کرواتا ہے، کیونکہ انسانی فطرت میں تعلق اور محبت کی خواہش گہری جڑیں رکھتی ہے۔ ایثارانہ رویہ ہماری خود اعتمادی کو بھی بڑھاتا ہے، کیونکہ جب ہم دوسروں کے لیے کچھ اچھا کرتے ہیں، تو ہمیں اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے اور اپنی ذات پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک ایسا طاقتور ٹول ہے جو ہمیں نہ صرف اندر سے مضبوط بناتا ہے بلکہ زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کی ہمت بھی دیتا ہے۔ اس سے ہماری زندگی میں ایک مثبت مقصد پیدا ہوتا ہے اور ہم خود کو زیادہ بامقصد محسوس کرتے ہیں۔






