دوستو، کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ زندگی کی بھاگ دوڑ میں سکون اور گہرائی کیسے ڈھونڈی جائے؟ آج کل ہر کوئی اندرونی امن کی تلاش میں ہے، اور ایسے میں بدھ مت کے سدا بہار اصول بہت خاص لگتے ہیں۔ میں نے خود جب اس سفر کو سمجھنے کی کوشش کی تو پایا کہ بدھ مت صرف ایک راستہ نہیں بلکہ بہت سے روشن دماغ اساتذہ کا ایک وسیع دریا ہے جنہوں نے اپنی زندگیوں سے ہمیں حکمت کے چشمے سکھائے ہیں۔ ان عظیم ہستیوں نے صرف فلسفہ ہی نہیں دیا بلکہ عملی زندگی گزارنے کے ایسے گُر بتائے جو آج بھی ہمارے مسائل کا حل بن سکتے ہیں۔ ان کے تجربات، ان کی سادگی، اور ان کی تعلیمات نے مجھے ایک نئی سوچ دی ہے۔ یہ جان کر حیرانی ہوتی ہے کہ ہر استاد نے اپنے طریقے سے کائنات کے اسرار کو کھولا اور ہمیں بہتر انسان بننے کی ترغیب دی۔ یہ صرف پرانے قصے نہیں، بلکہ جدید دور میں بھی ان کی باتیں اتنی ہی تازہ اور کارآمد ہیں، خاص طور پر جب بات ذہنی سکون اور روحانی ترقی کی ہو۔ تو پھر، اگر آپ بھی ان ہی سچائیوں کی گہرائی میں اترنا چاہتے ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ کون تھے یہ عظیم اساتذہ اور ان کی تعلیمات ہمارے لیے کیا اہمیت رکھتی ہیں، تو آئیے، ہم اس کے بارے میں تفصیل سے جانتے ہیں!
سچائی کی تلاش اور گوتم بدھ کا لازوال سفر

دوستو، سدھارتھ گوتم کا سفر کوئی عام کہانی نہیں، یہ ایک ایسی داستان ہے جس نے ہزاروں سال سے لاکھوں لوگوں کو زندگی کا حقیقی مفہوم سمجھنے کی ترغیب دی ہے۔ میں نے خود جب ان کے ابتدائی زندگی کے بارے میں پڑھا تو مجھے لگا کہ ایک شہزادے کی آسائشوں بھری زندگی چھوڑ کر سچائی کی تلاش میں نکل جانا کتنا مشکل فیصلہ رہا ہو گا۔ محل کی چکاچوند، ہر طرح کی خوشیاں اور دنیاوی لذتیں، سب کچھ ان کے قدموں میں تھا، مگر ان کا دل کہیں اور ہی سکون تلاش کر رہا تھا۔ انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ ساری مادی چیزیں ایک وقتی خوشی دیتی ہیں، اصل سکون اندر کی خاموشی اور سچائی میں پوشیدہ ہے۔ اسی لیے، اس شہزادے نے دنیا کی فانی خوبصورتیوں کو ٹھکرا کر ایک ایسا راستہ چنا جس نے اسے لافانی بنا دیا۔ یہ ان کا عزم ہی تھا جس نے انہیں اس سفر پر گامزن کیا جہاں جسمانی دکھ اور ذہنی الجھنیں انہیں حقیقت سے دور نہیں کر سکیں۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں کہ دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک مذہب بدھ مت آج بھی ان کی تعلیمات پر قائم ہے۔
عیش و عشرت سے کنارہ کشی
سدھارتھ گوتم، جو بعد میں مہاتما بدھ کہلائے، ایک شاہی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کی پرورش ایسی پرتعیش ماحول میں ہوئی جہاں دکھ اور پریشانی کا تصور بھی نہیں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں دنیا کے ہر دکھ سے دور رکھا گیا تاکہ وہ کبھی راج پاٹ چھوڑنے کا نہ سوچیں۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جب انہوں نے بڑھاپا، بیماری اور موت کو دیکھا تو ان کے دل میں زندگی کی حقیقت جاننے کی شدید خواہش پیدا ہوئی। یہ ایک ایسا لمحہ تھا جس نے ان کی پوری زندگی کا رخ موڑ دیا۔ انہیں یہ احساس ہوا کہ یہ تمام خوشیاں اور آسائشیں عارضی ہیں اور ہر انسان کو ان مشکلات سے گزرنا ہے۔ یہ ایک ایسا احساس تھا جس نے انہیں راتوں کی نیند سے محروم کر دیا اور پھر ایک دن انہوں نے سب کچھ چھوڑ کر سچائی کی تلاش کا فیصلہ کر لیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ ایک راجکمار اپنے بیوی بچے، اپنے ماں باپ اور اپنے شاہی محل کو چھوڑ کر ایک ننگے پیر فقیر کی طرح نکل پڑے। ان کا یہ قدم آج بھی ہمیں سکھاتا ہے کہ جب دل میں سچائی کی تڑپ ہو تو کوئی بھی دنیاوی آسائش رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
تلاشِ حق اور کٹھن ریاضت
راج پاٹ چھوڑنے کے بعد سدھارتھ نے برسوں کٹھن ریاضتیں کیں۔ انہوں نے بھوک پیاس کی پرواہ نہ کی، جسم کو اذیتیں دیں، اور کئی اساتذہ سے علم حاصل کیا। میں نے خود جب سوچا کہ یہ کتنا صبر آزما مرحلہ رہا ہوگا، تو میرا دل کانپ اٹھا۔ ایسے میں جب بھوک اور پیاس ستاتی ہے، جسم ہمت ہار جاتا ہے، مگر سچائی کی تڑپ انہیں آگے بڑھاتی رہی۔ آخر کار، انہیں یہ ادراک ہوا کہ صرف جسم کو اذیت دینے سے سچائی نہیں مل سکتی۔ بلکہ یہ راستہ اعتدال کا ہے، نہ بہت زیادہ آرام اور نہ بہت زیادہ سختی। اس کے بعد انہوں نے بودھ گیا کے مقام پر ایک پیپل کے درخت کے نیچے گیان دھیان کیا اور اسی دن انہیں روشن خیالی یعنی نروان حاصل ہوا। یہ وہ دن تھا جب سدھارتھ سے مہاتما بدھ بن گئے، اور ان کی یہ روشن خیالی آج بھی کروڑوں لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
اندرونی سکون کا راستہ: چار عظیم سچائیاں
مہاتما بدھ نے جو سب سے بنیادی تعلیمات دیں، وہ چار عظیم سچائیوں کی شکل میں ہیں۔ یہ سچائیاں ہماری زندگی کے سب سے گہرے مسائل کا حل پیش کرتی ہیں۔ جب میں نے ان سچائیوں کو سمجھنے کی کوشش کی تو مجھے احساس ہوا کہ یہ صرف فلسفہ نہیں بلکہ عملی زندگی کا ایک نقشہ ہے۔ یہ بتاتی ہیں کہ ہماری زندگی میں دکھ کیوں ہے، اس دکھ کی وجہ کیا ہے، اس دکھ کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے، اور پھر اس خاتمے کا راستہ کیا ہے। میرے خیال میں، آج کی بھاگ دوڑ والی زندگی میں جہاں ہر شخص کسی نہ کسی دکھ کا شکار ہے، یہ سچائیاں ہمیں ایک نئی روشنی دکھاتی ہیں۔ یہ صرف ان لوگوں کے لیے نہیں ہیں جو ترکِ دنیا کرنا چاہتے ہیں، بلکہ ہر اس شخص کے لیے ہیں جو اپنی زندگی کو بہتر بنانا اور اندرونی سکون حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ان تعلیمات کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ حقیقت پر مبنی ہیں اور انسان کو خود اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
زندگی کا اصل دکھ
پہلی سچائی یہ ہے کہ زندگی دکھ ہے। یہ سن کر بہت سے لوگ پریشان ہو سکتے ہیں، مگر اگر ہم اپنی زندگی پر غور کریں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ پیدائش دکھ ہے، بڑھاپا دکھ ہے، بیماری دکھ ہے، اور موت بھی دکھ ہے। جن چیزوں کو ہم پسند کرتے ہیں، ان سے جدائی دکھ ہے، اور جو چیزیں ناپسند ہوں، ان کا سامنا کرنا بھی دکھ ہے۔ یہ سب چیزیں مستقل نہیں ہیں، سب فانی ہیں۔ میں نے خود یہ کئی بار محسوس کیا ہے کہ جب ہم کسی چیز سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتے ہیں اور وہ ہمیں نہیں ملتی یا ہم سے بچھڑ جاتی ہے، تو ہمیں گہرا دکھ ہوتا ہے۔ مہاتما بدھ نے ہمیں یہ نہیں کہا کہ خوشیاں نہیں ہیں، بلکہ یہ بتایا کہ خوشیاں عارضی ہیں اور ان سے جو لگاؤ ہے، وہ ہمیں دکھ کی طرف لے جاتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنا ہی سکون کی طرف پہلا قدم ہے۔
خواہشات کی جڑ
دوسری سچائی یہ ہے کہ دکھ کا اصل سبب ہماری خواہشات، ہماری پیاس یا ہمارے لگاؤ ہیں। ہم ہمیشہ کسی نہ کسی چیز کی خواہش کرتے رہتے ہیں، چاہے وہ پیسہ ہو، شہرت ہو، یا کوئی مادی چیز۔ اور جب یہ خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔ یہ خواہشات ہمیں بار بار جنم لینے کے چکر میں پھنسا دیتی ہیں، جسے بدھ مت میں “سنسار” کہا جاتا ہے। میں نے خود اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ جب میں کسی چیز کے پیچھے بہت زیادہ بھاگتا ہوں اور وہ مجھے نہیں ملتی تو میں کتنا بے چین ہو جاتا ہوں۔ بدھ مت ہمیں سکھاتا ہے کہ یہ پیاس دراصل ہماری لاعلمی سے پیدا ہوتی ہے، جب ہم حقیقت کو اس کی اصل شکل میں نہیں سمجھتے। اس لاعلمی کو دور کرنا ہی ہمیں خواہشات کے اس جال سے آزاد کر سکتا ہے۔ یہ نہ صرف مادی خواہشات ہیں بلکہ زندگی کی ہر طرح کی پیاس، چاہے وہ بقا کی ہو یا کسی احساس کو مستقل بنانے کی، یہ سب دکھ کا باعث بنتی ہے۔
عملی زندگی کا دستور: ہشت پہلو راستہ
چار عظیم سچائیوں میں سے آخری سچائی دکھ کے خاتمے کا راستہ ہے، اور اسی راستے کو ہشت پہلو راستہ کہا جاتا ہے। یہ راستہ صرف روحانی ترقی کے لیے نہیں ہے بلکہ ہماری روزمرہ کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے بھی ایک بہترین دستور ہے۔ میں نے جب اس راستے کو سمجھنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ یہ کوئی مشکل فلسفہ نہیں بلکہ سیدھے سادے اصول ہیں جنہیں کوئی بھی اپنی زندگی میں شامل کر سکتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ کیسے ہم اپنی سوچ، اپنے کلام، اپنے عمل اور اپنی روزی روٹی کو اس طرح رکھیں کہ ہم ایک پرسکون اور بامقصد زندگی گزار سکیں۔ یہ راستہ ہمیں خود احتسابی کا درس دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ ہم کیسے اپنی غلطیوں سے سیکھ کر ایک بہتر انسان بن سکتے ہیں۔ یہ آٹھ پہلو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ان پر عمل کرنا ہمیں نروان کے قریب لے جاتا ہے۔
سچی سوچ اور کلام
ہشت پہلو راستے میں “درست سوچ” اور “درست کلام” بہت اہم ہیں۔ درست سوچ کا مطلب ہے کہ ہماری نیت اچھی ہو، ہم کسی کے بارے میں برا نہ سوچیں، اور ہماری سوچ میں رحم دلی اور ہمدردی ہو۔ میں نے یہ اکثر محسوس کیا ہے کہ جب میری سوچ مثبت ہوتی ہے تو میرا دن بھی اچھا گزرتا ہے، اور جب میں منفی سوچوں میں گھر جاتا ہوں تو ہر چیز خراب لگتی ہے۔ اسی طرح، درست کلام کا مطلب ہے کہ ہماری زبان سے کسی کو دکھ نہ پہنچے، ہم سچ بولیں، گالی گلوچ سے پرہیز کریں، اور فضول باتیں نہ کریں۔ آج کل سوشل میڈیا کے دور میں جہاں ہر کوئی کچھ بھی بول دیتا ہے، درست کلام کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ الفاظ کی طاقت کو سمجھیں اور انہیں مثبت طریقے سے استعمال کریں۔ کسی کو جھوٹی امید دینا یا کسی کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا بھی درست کلام کے منافی ہے۔
ذہن کی تربیت اور ارتکاز
ہشت پہلو راستے کا ایک اور اہم حصہ “درست کوشش”، “درست آگاہی”، اور “درست ارتکاز” ہے। درست کوشش کا مطلب ہے کہ ہم ہمیشہ اپنی منفی عادات کو ترک کرنے اور مثبت عادات کو اپنانے کی کوشش کریں۔ درست آگاہی یعنی دھیان کا مطلب ہے کہ ہم اپنے ذہن اور جسم کے بارے میں مکمل طور پر باخبر رہیں۔ ہم کیا سوچ رہے ہیں، کیا محسوس کر رہے ہیں، اور کیا کر رہے ہیں، ان سب پر توجہ دیں۔ میں نے خود مراقبہ کے دوران یہ محسوس کیا ہے کہ جب ہم اپنے ذہن پر توجہ دیتے ہیں تو بہت سی غیر ضروری سوچیں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔ درست ارتکاز کا مطلب ہے کہ اپنے ذہن کو کسی ایک نقطہ پر مرکوز کرنا، جو کہ دھیان یا مراقبہ کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے। یہ ہمیں ذہنی سکون اور گہری بصیرت فراہم کرتا ہے، جس سے ہم اپنی زندگی کے مسائل کو زیادہ بہتر طریقے سے حل کر سکتے ہیں۔ یہ سب پہلو مل کر ہمیں ایک پُرسکون اور روشن زندگی کی طرف لے جاتے ہیں۔
نروان: دائمی راحت اور آزادی
نروان، بدھ مت کا حتمی مقصد ہے اور یہ ایک ایسی حالت ہے جسے اکثر لوگ غلط سمجھتے ہیں۔ یہ کوئی جنت یا کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں موت کے بعد جایا جاتا ہے، بلکہ یہ ایک روحانی کیفیت ہے جو اسی زندگی میں حاصل کی جا سکتی ہے। میں نے جب نروان کے تصور کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کی تو مجھے احساس ہوا کہ یہ دراصل تمام دکھوں، خواہشات اور انا سے آزادی کا نام ہے۔ یہ وہ حالت ہے جب انسان دنیاوی بندھنوں سے مکمل طور پر آزاد ہو جاتا ہے اور اسے دائمی سکون اور امن مل جاتا ہے। یہ کوئی آسان راستہ نہیں، بلکہ اس کے لیے ایک طویل اور پرعزم روحانی سفر کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایسی حالت ہے جہاں نہ کوئی خواہش باقی رہتی ہے اور نہ کوئی نفرت یا جہالت।
خواہشات سے چھٹکارا
نروان کا بنیادی مقصد تمام خواہشات سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان ہر طرح کی خواہشات کو ختم کر دے، بلکہ ان خواہشات سے آزادی حاصل کرے جو اسے دکھ اور پریشانی کی طرف لے جاتی ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں بارہا دیکھا ہے کہ کس طرح ہماری چھوٹی چھوٹی خواہشات ہمیں بے چین رکھتی ہیں۔ جب ہم کسی چیز کے پیچھے بھاگتے ہیں، اور وہ ہمیں نہیں ملتی، تو دکھ ہوتا ہے۔ نروان اس دکھ سے آزادی دلاتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ کس طرح ہم اپنی خواہشات کو کنٹرول کریں اور ان کے غلام نہ بنیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم زندگی کی حقیقت کو سمجھیں اور یہ جان لیں کہ ہر چیز فانی ہے۔ یہ ایک گہرا ادراک ہے جو ہمیں دنیاوی چیزوں سے غیر مشروط آزادی دلاتا ہے۔ یہ صرف بھوک، پیاس یا مادی اشیاء کی خواہشات نہیں بلکہ غصہ، نفرت اور فریب جیسی اندرونی خواہشات سے بھی آزادی ہے۔
وجود کا گہرا ادراک
نروان صرف خواہشات سے آزادی نہیں بلکہ وجود کا گہرا ادراک بھی ہے۔ یہ وہ حالت ہے جہاں انسان خود کو کائنات کے ساتھ جڑا ہوا محسوس کرتا ہے۔ اسے یہ احساس ہو جاتا ہے کہ وہ سب کا حصہ ہے اور کوئی الگ وجود نہیں رکھتا۔ یہ ایک روشن خیالی کی کیفیت ہے جہاں تمام شکوک و شبہات ختم ہو جاتے ہیں اور انسان کو حقیقت کا مکمل ادراک ہو جاتا ہے۔ میں نے کئی بار سوچا ہے کہ کتنا خوبصورت احساس ہوگا جب انسان اس حالت کو پہنچ جائے گا جہاں کوئی خوف نہیں، کوئی دکھ نہیں، اور صرف امن ہی امن ہے۔ یہ حالت انسان کو دنیا کے مصائب سے آزاد کر کے ایک ابدی سکون فراہم کرتی ہے۔ اس حالت کو پانے کے بعد انسان بار بار جنم لینے کے چکر سے بھی آزاد ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی بلندی ہے جہاں ہر چیز کا مکمل علم ہو جاتا ہے اور انسان خود کو اس دنیا کی ہر چیز سے بالاتر محسوس کرتا ہے۔
دھیان (مراقبہ): روحانی سفر کا دل
دھیان، جسے ہم مراقبہ کے نام سے جانتے ہیں، بدھ مت کے روحانی سفر کا ایک اہم ستون ہے۔ یہ صرف آنکھیں بند کر کے بیٹھ جانے کا عمل نہیں، بلکہ یہ ذہن کی تربیت کا ایک گہرا عمل ہے جو ہمیں اندرونی سکون اور حقیقت کا ادراک دلاتا ہے۔ میں نے خود جب مراقبہ کرنا شروع کیا تو مجھے پہلے پہل بہت مشکل لگی، میرا ذہن ادھر ادھر بھاگتا رہتا تھا، مگر آہستہ آہستہ مجھے اس کی اہمیت کا احساس ہونے لگا۔ یہ وہ ٹول ہے جس کے ذریعے ہم اپنے ذہن کو کنٹرول کرنا سیکھتے ہیں اور اسے منفی سوچوں سے آزاد کرتے ہیں۔ مراقبہ کی بدولت ہی مہاتما بدھ کو نروان حاصل ہوا تھا۔ آج کے دور میں جہاں ہر شخص کسی نہ کسی ذہنی دباؤ کا شکار ہے، دھیان ہمیں اس سے نکلنے کا ایک آسان اور مؤثر طریقہ فراہم کرتا ہے۔
ذہن کی تربیت اور کامل مساوات
دھیان کے ذریعے ہم اپنے ذہن کو تربیت دیتے ہیں تاکہ وہ تاثرات سے متعلق خود بخود ردعمل سے پیچھے ہٹ سکے اور “کامل مساوات کی کیفیت” حاصل کر سکے۔ اس کا مطلب ہے کہ زندگی میں اچھے برے حالات، خوشی اور دکھ، سب کو ایک ہی نظر سے دیکھنا اور ان سے متاثر نہ ہونا۔ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ جب ہم اپنے ذہن کو پرسکون رکھتے ہیں تو ہم کسی بھی مشکل صورتحال کو زیادہ بہتر طریقے سے سنبھال سکتے ہیں۔ دھیان ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم اپنے احساسات اور خیالات کو کیسے observe کریں، انہیں judge نہ کریں، اور انہیں گزر جانے دیں। یہ ہمیں اپنی اندرونی دنیا کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور ہمیں ذہنی طور پر مضبوط بناتا ہے۔ یہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ ہمارا حقیقی وجود کیا ہے اور ہم کیسے اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی اس کے بندھنوں سے آزاد رہ سکتے ہیں۔
آدھونک دور میں دھیان کی اہمیت
آج کی مصروف زندگی میں جہاں ہر کوئی ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا میں کھویا ہوا ہے، دھیان کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ہم ہر وقت کسی نہ کسی پریشانی میں گھرے رہتے ہیں، اور ہمارا ذہن کبھی پرسکون نہیں ہوتا۔ ایسے میں دھیان ہمیں ایک ایسی جگہ فراہم کرتا ہے جہاں ہم اپنے ذہن کو آرام دے سکیں اور اندرونی سکون حاصل کر سکیں۔ کئی ریسرچز بھی یہ ثابت کر چکی ہیں کہ مراقبہ ذہنی دباؤ کو کم کرتا ہے، توجہ کو بہتر بناتا ہے، اور ہماری مجموعی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ صرف 10 سے 15 منٹ کا روزانہ کا مراقبہ آپ کی زندگی میں ایک مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔ یہ ہمیں زیادہ پرسکون، زیادہ فوکسڈ، اور زیادہ خوش رہنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ ایک ایسی سرمایہ کاری ہے جو آپ کو روحانی اور ذہنی طور پر بہت کچھ واپس دیتی ہے۔
بودھی اساتذہ کا ورثہ اور ہماری ذمہ داری

مہاتما بدھ کے بعد کئی عظیم ہستیاں آئیں جنہوں نے ان کی تعلیمات کو آگے بڑھایا اور دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلایا۔ یہ اساتذہ صرف کتابی علم والے نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیوں میں ان اصولوں پر عمل کر کے ہمیں ایک عملی نمونہ دکھایا۔ ان کے تجربات اور ان کی لگن نے بدھ مت کو آج دنیا کے چوتھے سب سے بڑے مذہب میں سے ایک بنا دیا ہے۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس عظیم ورثے کو سمجھیں اور اسے اپنی زندگیوں میں شامل کرنے کی کوشش کریں۔ میں نے خود جب ان اساتذہ کی کہانیاں پڑھیں تو مجھے احساس ہوا کہ صرف گوتم بدھ ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے روشن ضمیر بودھوں نے دنیا کو روشنی دکھائی। ان کا پیغام آج بھی اتنا ہی تازہ اور کارآمد ہے جتنا ڈھائی ہزار سال پہلے تھا।
تعلیمات کا تسلسل
گوتم بدھ کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں نے ان کی تعلیمات کو زبانی طور پر منتقل کیا اور پھر انہیں تحریری شکل دی۔ یہ ایک بہت بڑا کام تھا جس کی بدولت آج ہمیں یہ قیمتی علم حاصل ہے۔ مختلف علاقوں اور ثقافتوں میں بدھ مت نے مختلف شکلیں اختیار کیں، جیسے تھیرواد اور مہایان। مگر ان سب کی بنیادی تعلیم ایک ہی ہے: دکھ سے نجات کا راستہ। اشوک اعظم جیسے بادشاہوں نے بھی بدھ مت کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا। ان کی وجہ سے بدھ مت نے ہندوستان سے نکل کر ایشیا کے کئی ممالک میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے ہزاروں سال پہلے کی تعلیمات آج بھی دنیا کے ہر کونے میں لوگوں کی رہنمائی کر رہی ہیں اور نئے چیلنجز کا مقابلہ کر رہی ہیں۔
اپنی راہ خود تلاش کرنا
بودھی تعلیمات ہمیں یہ بھی سکھاتی ہیں کہ ہمیں اندھا دھند کسی چیز پر ایمان نہیں لانا چاہیے، بلکہ ہر چیز کو اپنی عقل اور تجربے کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے۔ مہاتما بدھ نے خود اپنے شاگردوں سے کہا تھا کہ وہ ان کی باتوں کو من و عن تسلیم نہ کریں بلکہ خود تحقیق کریں اور پھر فیصلہ کریں۔ یہ ایک بہت ہی liberating اصول ہے جو ہمیں ذہنی آزادی دیتا ہے۔ میرے خیال میں، یہ آج کے دور میں بہت ضروری ہے جہاں ہر طرف سے معلومات کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ ہمیں اپنی اندرونی آواز سننی چاہیے اور سچائی کو خود اپنے تجربات سے جانچنا چاہیے۔ یہ ہمیں دوسروں پر انحصار کرنے کی بجائے خود انحصاری کا درس دیتا ہے اور ہمیں ایک زیادہ پختہ اور آزاد سوچ والا انسان بناتا ہے۔
| عظیم بودھی استاد | اہم تعلیمات کا خلاصہ | زندگی پر اثر |
|---|---|---|
| گوتم بدھ (سدھارتھ) | چار عظیم سچائیاں، ہشت پہلو راستہ، نروان | دکھ سے آزادی، اندرونی سکون، روشن خیالی |
| ناگارجن (مدھیامکا) | خالی پن کا فلسفہ، تمام مظاہر کی باہمی انحصار | حقیقت کی گہری سمجھ، انا کا خاتمہ |
| آریادیوا | نظریات کی تنقید، بدھ مت کی تشریح | فلسفے میں وضاحت، شکوک و شبہات کا ازالہ |
مستقبل کی روشنیاں: جدید زندگی میں بدھ مت کی اہمیت
آج ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں مادی ترقی تو بہت زیادہ ہے، مگر ذہنی سکون اور روحانی اطمینان کی کمی ہے۔ سوشل میڈیا، تیز رفتار زندگی، اور ہر وقت کی بھاگ دوڑ نے ہمیں اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ ایسے میں بدھ مت کی تعلیمات ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہیں جو ہمیں اپنے اندر جھانکنے اور حقیقی خوشی تلاش کرنے کا راستہ دکھاتی ہیں۔ میں نے خود جب ان تعلیمات کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کی کوشش کی تو مجھے لگا کہ یہ صرف پرانے قصے نہیں، بلکہ آج بھی اتنی ہی کارآمد اور عملی ہیں۔ یہ ہمیں سکھاتی ہیں کہ کس طرح ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں رہتے ہوئے بھی اپنے اندر امن اور سکون پیدا کر سکتے ہیں۔
مادی دنیا میں روحانی جڑیں
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ بدھ مت کا مطلب دنیا چھوڑ کر جنگلوں میں چلے جانا ہے، مگر حقیقت اس سے مختلف ہے۔ بدھ مت ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم مادی دنیا میں رہتے ہوئے بھی روحانی جڑیں مضبوط رکھ سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی خواہشات کو کنٹرول کرنا ہے، انہیں ختم نہیں کرنا۔ ایک گھر والا شخص بھی ایک بھکشو کی طرح روحانی ترقی کر سکتا ہے اگر وہ درست سوچ، درست کلام، اور درست عمل کا راستہ اپنائے۔ میرے خیال میں، آج کے دور میں جہاں سب پیسہ اور شہرت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، بدھ مت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حقیقی دولت اندرونی سکون ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ صرف باہر کی چیزیں حاصل کرنے سے ہم خوش نہیں ہو سکتے، اصل خوشی تو ہمارے اندر ہے۔ ہمیں اپنی ضروریات اور خواہشات میں توازن پیدا کرنا سکھاتا ہے۔
امن اور بھائی چارے کا پیغام
بدھ مت کا ایک اور اہم پہلو امن اور بھائی چارے کا پیغام ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ تمام جانداروں سے محبت اور رحم دلی سے پیش آئیں، کسی کو نقصان نہ پہنچائیں، اور نفرت کو محبت سے ختم کریں। آج دنیا میں جہاں تشدد اور نفرت بڑھتی جا رہی ہے، بدھ مت کا یہ پیغام اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب ہم دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں تو ہمیں اندرونی خوشی ملتی ہے۔ یہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہم اختلافات کے باوجود کیسے ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طریقے سے رہ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا فلسفہ ہے جو نہ صرف انسانوں کو بلکہ پوری کائنات کو ایک ساتھ جوڑتا ہے اور ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ہم سب ایک ہی خاندان کا حصہ ہیں۔ پاکستان میں بھی بدھ مت کے کئی قدیم آثار موجود ہیں جو بین المذاہب ہم آہنگی اور مذہبی سیاحت کو فروغ دے سکتے ہیں।
ذہن کو روشن کرنے کی حکمت: بودھی اساتذہ کا انتخاب
مہاتما بدھ کی تعلیمات کے بعد بہت سے روشن دماغ اساتذہ نے ان کے فلسفے کو مزید گہرائی دی اور اسے مختلف ثقافتوں میں ڈھالا۔ یہ اساتذہ صرف مبلغ نہیں تھے، بلکہ انہوں نے اپنی زندگیوں کو ان اصولوں کا جیتا جاگتا ثبوت بنایا۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے پیچیدہ فلسفوں کو آسان اور عملی شکل میں پیش کیا، تاکہ ہر عام انسان اسے سمجھ سکے اور اپنی زندگی میں ڈھال سکے۔ ان عظیم ہستیوں نے صرف فکری رہنمائی ہی نہیں کی بلکہ ہمیں یہ بھی سکھایا کہ ہم کیسے اپنی روزمرہ کی مشکلات کا سامنا کریں اور ایک پرامن زندگی گزاریں۔
عظیم ہستیوں کا فکری اثر
مہایان اور تھیرواد جیسی بدھ مت کی شاخوں میں کئی اساتذہ نے اپنے منفرد انداز میں تعلیمات کو پیش کیا۔ مثال کے طور پر، ناگارجن جیسے عظیم فلسفیوں نے ‘خالی پن’ (انگریزی میں ‘Emptiness’) کے تصور کو واضح کیا، جس کا مطلب یہ نہیں کہ کچھ بھی موجود نہیں، بلکہ یہ ہے کہ تمام چیزیں اپنے آپ میں مستقل وجود نہیں رکھتیں بلکہ ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ میں نے جب اس تصور کو سمجھا تو مجھے لگا کہ یہ ہماری انا اور ضد کو ختم کرنے میں کتنی مددگار ہو سکتی ہے، کیونکہ جب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں تو پھر مقابلہ آرائی اور نفرت خود بخود کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح، اشوک اعظم نے بدھ مت کو اپنی سلطنت کا سرکاری مذہب بنایا اور اسے ہندوستان سے باہر پھیلایا। یہ اساتذہ ہمیں بتاتے ہیں کہ صرف علمی بحثیں کافی نہیں، بلکہ ان تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا سب سے اہم ہے۔
جدید دور میں رہنمائی
آج بھی ایسے اساتذہ موجود ہیں جو بدھ مت کے فلسفے کو جدید زبان میں پیش کر رہے ہیں۔ چودھویں دلائی لاما جیسے رہنما نہ صرف بدھ مت کے اصولوں کو دنیا تک پہنچا رہے ہیں بلکہ ماحولیاتی مسائل، انسانی حقوق، اور عالمی امن جیسے موضوعات پر بھی آواز اٹھاتے ہیں۔ مجھے ان سے سیکھنے کو ملتا ہے کہ کیسے قدیم حکمت کو جدید چیلنجز پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔ ان کا پیغام یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں رحم دلی، ایمانداری اور صبر کو اپنائیں۔ یہ صرف کتابوں کی باتیں نہیں ہیں، بلکہ یہ وہ اصول ہیں جو ہمیں روزمرہ کی زندگی میں زیادہ خوش اور مطمئن رہنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ ان اساتذہ نے ہمیں یہ بھی سکھایا کہ ہمیں اپنے علم کو دوسروں کے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہیے، اور یہی حقیقی روحانیت ہے۔
ذہن کی گہرائیوں کا سفر: حقیقی خوشی کا راز
زندگی میں حقیقی خوشی اور اطمینان حاصل کرنا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے، لیکن ہم اکثر اسے بیرونی چیزوں میں تلاش کرتے رہتے ہیں، جبکہ بدھ مت کے اساتذہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ یہ ہمارے اندر پوشیدہ ہے۔ ان کی تعلیمات دراصل ایک گہرا سفر ہے جو ہمیں اپنے ذہن کی گہرائیوں میں لے جاتا ہے اور وہاں چھپے امن اور سکون کو تلاش کرنے میں مدد دیتا ہے۔ میں نے خود جب ان کی بتائی ہوئی راہ پر چلنے کی کوشش کی تو پایا کہ یہ کوئی مشکل یا غیر فطری راستہ نہیں بلکہ یہ ہمیں فطرت کے قریب لاتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ کیسے ہم اپنے خیالات، احساسات اور تجربات کو بہتر طریقے سے سنبھال سکتے ہیں۔
مستقل خوشی کی تلاش
ہم سب مستقل خوشی کی تلاش میں رہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہر چیز عارضی ہے۔ بدھ مت کے اساتذہ ہمیں یہ ادراک دلاتے ہیں کہ خوشی باہر کی چیزوں میں نہیں بلکہ ہمارے اندر ہے۔ جب ہم اپنی خواہشات کو کنٹرول کرنا سیکھ لیتے ہیں اور چیزوں سے غیر ضروری لگاؤ ختم کر دیتے ہیں، تو ہمیں ایک ایسی خوشی ملتی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ یہ وہ خوشی ہے جو اندر سے پھوٹتی ہے اور حالات کے بدلنے سے متاثر نہیں ہوتی۔ میں نے جب یہ سمجھا کہ میرا اندرونی سکون کسی اور چیز پر منحصر نہیں بلکہ میرے اپنے رویوں پر ہے، تو مجھے ایک عجیب سی آزادی محسوس ہوئی۔ یہ سچ ہے کہ ہم اپنی زندگی کے دکھوں کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتے، لیکن ہم اپنے ردعمل کو بدل کر انہیں ہلکا ضرور کر سکتے ہیں۔
ذہن کی طاقت کا استعمال
بدھ مت ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہمارا ذہن کتنا طاقتور ہے اور ہم اسے کیسے مثبت طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔ ہمارا ذہن یا تو ہمارے دکھ کا سبب بن سکتا ہے یا ہمارے سکون کا۔ مراقبہ اور دھیان کے ذریعے ہم اپنے ذہن کو مثبت سمت میں موڑ سکتے ہیں اور اسے زیادہ پرسکون اور فوکسڈ بنا سکتے ہیں۔ یہ ہمیں اپنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر بروئے کار لانے کا موقع دیتا ہے۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ہماری ذہنی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کئی ایسے عملی طریقے موجود ہیں جو آج بھی اتنے ہی کارآمد ہیں جتنے صدیوں پہلے تھے۔ یہ اساتذہ ہمیں بتاتے ہیں کہ حقیقی تبدیلی اندر سے آتی ہے، اور جب ہم اپنے ذہن کو تبدیل کرتے ہیں تو ہماری پوری زندگی بدل جاتی ہے۔
اختتامی کلمات
دوستو، سچ پوچھیں تو گوتم بدھ کا یہ سفر اور ان کی تعلیمات میرے دل کو ہمیشہ چھوتی ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی تعلیمات صرف ایک پرانے فلسفے کی نہیں بلکہ آج کی تیز رفتار زندگی میں بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہیں جتنی صدیوں پہلے تھیں۔ ہم سب اپنی زندگیوں میں سکون اور خوشی کی تلاش میں رہتے ہیں، اور بدھ مت ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ یہ سکون باہر نہیں بلکہ ہمارے اندر ہے۔ اگر ہم ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں، خواہ کچھ چھوٹے قدموں سے ہی سہی، تو یقین مانیں ہماری زندگی میں ایک مثبت تبدیلی ضرور آئے گی۔ یہ صرف ایک راستہ نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے جو ہمیں زیادہ پرامن اور بامقصد بناتا ہے، اور میں نے خود اسے اپنی ذات میں محسوس کیا ہے۔
جاننے کے لیے مفید معلومات
1. روزانہ مراقبہ کی عادت: اپنے دن کا آغاز صرف 10 سے 15 منٹ کے مراقبہ سے کریں. میں نے خود دیکھا ہے کہ یہ آپ کے ذہنی تناؤ کو کم کرتا ہے اور آپ کو دن بھر زیادہ پرسکون اور مرکوز رہنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ ایک ایسی چھوٹی سی عادت ہے جو آپ کی پوری زندگی کو بدل سکتی ہے اور آپ کو اندرونی طاقت بخشتی ہے۔
2. شکر گزاری کی مشق: روزانہ ان چیزوں کی فہرست بنائیں جن کے لیے آپ شکر گزار ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی ہو سکتی ہیں، جیسے اچھا کھانا، دھوپ، یا کسی دوست کا ساتھ۔ یہ آپ کے مثبت رویے کو فروغ دیتا ہے اور منفی خیالات کو دور کرتا ہے، میں نے تجربہ کیا ہے کہ یہ دل کو سکون بخشتا ہے اور خوشیوں کو بڑھاتا ہے۔
3. اپنی خواہشات کا جائزہ لیں: اپنی خواہشات پر غور کریں اور دیکھیں کہ کون سی خواہشات آپ کو بے چین کر رہی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر خواہش پوری کی جائے، بعض اوقات کچھ چیزوں کو جانے دینا ہی آپ کو سکون دیتا ہے۔ یہ ایک ایسی بصیرت ہے جو آپ کو فانی چیزوں سے آزاد کرتی ہے اور زندگی میں حقیقی اطمینان لاتی ہے۔
4. دوسروں کے ساتھ ہمدردی: دوسروں کے ساتھ نرمی اور ہمدردی کا سلوک کریں۔ جب ہم دوسروں کی مدد کرتے ہیں یا ان کے ساتھ اچھے ہوتے ہیں تو ہمیں خود اندرونی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ میرے نزدیک یہ بدھ مت کا ایک خوبصورت عملی پہلو ہے جو دنیا میں محبت اور بھائی چارے کو فروغ دیتا ہے، اور میں نے ذاتی طور پر اس کے مثبت اثرات دیکھے ہیں۔
5. فطرت کے ساتھ جڑاؤ: کبھی کبھی شہر کی گہما گہمی سے نکل کر فطرت کے قریب وقت گزاریں۔ پارک میں چہل قدمی کریں یا کسی پرسکون جگہ پر بیٹھ کر فطرت کے حسن کا مشاہدہ کریں۔ یہ نہ صرف آپ کے ذہن کو تازہ دم کرتا ہے بلکہ آپ کو ایک گہرا روحانی سکون بھی فراہم کرتا ہے، میں نے خود اسے آزمایا ہے اور یہ واقعی حیرت انگیز ہے۔
اہم نکات کا خلاصہ
اس پوری گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ گوتم بدھ کی تعلیمات آج بھی اتنی ہیRelevant ہیں جتنی ہزاروں سال پہلے تھیں۔ ہم نے ان کے زندگی کے سفر سے سچائی کی تلاش، عیش و عشرت سے کنارہ کشی اور کٹھن ریاضت کے بارے میں جانا، جس نے انہیں سدھارتھ سے بدھ بنایا۔ چار عظیم سچائیوں نے ہمیں دکھ، اس کی وجوہات اور اس کے خاتمے کا راستہ دکھایا۔ ہشت پہلو راستہ ایک عملی دستور ہے جو ہمیں درست سوچ، کلام اور عمل کے ذریعے ایک پرسکون زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔ نروان کی منزل خواہشات اور انا سے مکمل آزادی کا نام ہے، جو اسی زندگی میں حاصل کی جا سکتی ہے اور جو ہمیں ابدی امن فراہم کرتی ہے۔ دھیان (مراقبہ) ایک ایسا طاقتور ٹول ہے جو ہمارے ذہن کو تربیت دیتا ہے اور ہمیں کامل مساوات کی کیفیت عطا کرتا ہے، جس سے ہم زندگی کے ہر پہلو کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ آخر میں، بودھی اساتذہ کا ورثہ اور جدید زندگی میں بدھ مت کی اہمیت ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم مادی دنیا میں رہتے ہوئے بھی روحانی جڑیں مضبوط رکھ سکتے ہیں اور امن و بھائی چارے کا پیغام پھیلا سکتے ہیں۔ یہ تعلیمات ہمیں حقیقی خوشی اور اندرونی سکون کا راستہ دکھاتی ہیں جو ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: آج کی مصروف زندگی میں اندرونی سکون حاصل کرنے کے لیے بدھ مت کی بنیادی تعلیمات کیا ہیں؟
ج: دیکھیے، آج کل ہر کوئی بھاگ دوڑ میں لگا ہے، اور سچ پوچھیں تو مجھے بھی پہلے یہی لگتا تھا کہ شاید سکون تو بس کتابوں میں ہی ملتا ہے۔ لیکن جب میں نے بدھ مت کو گہرائی سے سمجھا تو پایا کہ اس کی تعلیمات میں ہماری روزمرہ کی زندگی کے لیے بہت اہم باتیں چھپی ہیں۔ خاص طور پر “چار عظیم سچائیاں” اور “آٹھ نکاتی راستہ”۔ مہاتما بدھ نے فرمایا کہ زندگی دکھوں سے بھری ہے، اور ان دکھوں کی وجہ ہماری خواہشات اور حقیقت سے ہماری لاعلمی ہے۔ یہ کوئی منفی بات نہیں بلکہ ایک سچائی ہے جسے قبول کرنا پہلا قدم ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی بار یہ بات سمجھی تو لگا کہ یار، یہ تو بالکل صحیح ہے!
ہم اکثر ان چیزوں کے پیچھے بھاگتے ہیں جو ہمیں خوشی دیتی ہیں، لیکن آخر کار وہی دکھ کا سبب بن جاتی ہیں۔پھر بات آتی ہے “آٹھ نکاتی راستے” کی، جو دراصل ہمیں دکھوں سے نجات پانے کا عملی طریقہ سکھاتا ہے۔ اس میں صحیح بصیرت، صحیح سوچ، صحیح بات، صحیح عمل، صحیح ذریعہ معاش، صحیح کوشش، صحیح توجہ اور صحیح دھیان شامل ہیں۔ یہ کوئی مشکل فلسفہ نہیں بلکہ آپ کی ہر عادت، ہر قول اور ہر فعل کو شعوری بنانے کی ایک کوشش ہے۔ جیسے میں نے خود اپنی بات چیت میں سچائی اور احتیاط شامل کرنے کی کوشش کی تو میرے تعلقات میں حیرت انگیز بہتری آئی۔ اس راستے پر چل کر ہم اپنے ذہن کو تربیت دیتے ہیں تاکہ وہ غیر ضروری خواہشات اور منفی خیالات سے آزاد ہو سکے اور ہم اندرونی سکون پا سکیں۔ یہ میری ذاتی رائے ہے کہ جب ہم ان اصولوں کو اپنی زندگی میں اپناتے ہیں تو ایک گہرا امن محسوس ہوتا ہے، جو باہر کی دنیا کے شور و غل سے متاثر نہیں ہوتا۔
س: گوتم بدھ کے بعد بدھ مت کے اہم اساتذہ کون تھے اور ان کی خدمات نے روشن خیالی کی راہ کو کیسے متاثر کیا؟
ج: یہ سوال مجھے بہت پسند ہے کیونکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بدھ مت صرف ایک شخص کی تعلیمات پر مبنی نہیں ہے۔ ہم عام طور پر گوتم بدھ کو ہی سب سے بڑا استاد سمجھتے ہیں، اور وہ واقعی روشن خیالی کے بانی تھے، لیکن ان کے بعد بھی کئی عظیم ہستیوں نے اس راستے کو مزید روشن کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ “بدھ” کا مطلب صرف سدھارتھ گوتم نہیں ہے، بلکہ یہ ایک “روشن ضمیر” یا “جاگتے ہوئے” شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور بہت سے لوگ ان کے بعد بھی اس مقام تک پہنچے۔ بدھ مت کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ اس نے مختلف سماجوں اور لوگوں کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے طریقوں کو ڈھال لیا۔گوتم بدھ کے جانے کے بعد، ان کی تعلیمات کو زبانی طور پر منتقل کیا جاتا رہا، پھر انہیں تحریری شکل دی گئی، جسے “تریپٹاکا” کہا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ، مختلف مکتبہ فکر ابھرے، جیسے “تھیراوَدا” اور “مہایانہ”۔ تھیراوَدا میں زیادہ تر راہبوں کی زندگی اور انفرادی نروان پر زور دیا گیا، جبکہ مہایانہ نے روشن خیالی کے مقصد کو عام لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی۔ ان ہر فرقے کے اپنے عظیم اساتذہ تھے جنہوں نے اپنی سمجھ اور تجربات کی بنیاد پر بدھا کی تعلیمات کی تشریح کی۔ زین بدھ مت، وجریانہ، اور دیگر شاخوں میں بھی کئی روشن ضمیر استاد ہوئے جنہوں نے مراقبے اور حکمت کے نئے طریقے سکھائے۔ میری اپنی سوچ ہے کہ ان سب اساتذہ کا ایک ہی مقصد تھا: لوگوں کو دکھوں سے نجات دلانا اور انہیں اندرونی آزادی کا راستہ دکھانا۔ ان کی متنوع تعلیمات نے آج بھی ہمارے لیے بہت سے دروازے کھول رکھے ہیں۔
س: جدید دور کے افراد، جو ذہنی تناؤ اور پریشانی کا شکار ہیں، کے لیے بدھ مت میں مراقبہ (دھیان) کس طرح ایک عملی ذریعہ ہو سکتا ہے؟
ج: آج کے دور میں، جب ہر طرف شور ہے اور ذہنی تناؤ ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے، مجھے یقین ہے کہ بدھ مت کا “دھیان” (مراقبہ) ایک ایسا خزانہ ہے جسے ہم سب کو آزمانا چاہیے۔ میں نے خود یہ محسوس کیا ہے کہ دھیان صرف کوئی مذہبی رسم نہیں، بلکہ یہ آپ کے ذہن کو تربیت دینے کا ایک طاقتور طریقہ ہے۔ بہت سے مغربی ممالک جہاں نفسیات پر زور دیا جاتا ہے، وہاں بھی دھیان کو ذہنی سکون کے لیے ایک اہم ٹول کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔دھیان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آپ اپنے ذہن کو موجودہ لمحے پر مرکوز کرنا سیکھیں۔ جب ہم دھیان کرتے ہیں، تو ہم اپنے خیالات، احساسات اور جسمانی sensations کو صرف دیکھتے ہیں، بغیر کسی ردعمل کے۔ مجھے یاد ہے شروع میں یہ بہت مشکل لگا تھا۔ میرا ذہن دس اور جگہوں پر بھٹکتا تھا!
لیکن مسلسل پریکٹس سے میں نے محسوس کیا کہ جیسے جیسے میں اپنے ذہن کو قابو کرنا سیکھا، میرے اندر ایک عجیب سی خاموشی اور سکون آنے لگا۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے آپ کسی شور شرابے والے بازار سے نکل کر ایک پرسکون باغ میں آ گئے ہوں۔ دھیان ہمیں اندرونی امن حاصل کرنے اور اپنے جذبات کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ نہ صرف ذہنی دباؤ کم کرتا ہے بلکہ آپ کی توجہ، آگاہی اور یادداشت کو بھی بہتر بناتا ہے۔ میرے خیال میں، یہ آج کے مصروف شیڈول میں بھی آسانی سے شامل کیا جا سکتا ہے، چاہے وہ صرف 10 سے 15 منٹ ہی کیوں نہ ہوں۔ جب میں نے یہ کرنا شروع کیا، تو میری کارکردگی اور رشتوں میں بھی مثبت فرق آیا۔ یہ صرف میرے لیے نہیں، آپ کے لیے بھی ایک بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے!






