کوریا میں بدھ مت کی قدیم تاریخ کو سمجھنے کے پانچ اہم نکات

webmaster

한국 불교의 역사 - Here are three detailed image generation prompts in English, designed to adhere to your safety guide...

کوریا کی دلکش سرزمین، جہاں قدیم روایات اور جدید ترقی کا حسین امتزاج ملتا ہے، ہمیشہ سے ہی میری توجہ کا مرکز رہی ہے۔ میں نے ذاتی طور پر محسوس کیا ہے کہ اس قوم کی ثقافت اور روح کو سمجھنے کے لیے اس کے روحانی سفر کو جاننا بے حد ضروری ہے۔ جنوبی کوریا کی تاریخ میں بدھ مت کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اس نے نہ صرف وہاں کے فن، ادب اور فن تعمیر کو متاثر کیا بلکہ آج کی جدید زندگی میں بھی اس کی تعلیمات سکون کا باعث ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب ہر کوئی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، صدیوں پرانی یہ حکمت کیسے آج بھی لوگوں کو متاثر کر رہی ہے، یہ جاننا خود ایک حیران کن تجربہ ہے۔ تو آئیے، آج ہم کورین بدھ مت کی شاندار تاریخ کا بغور جائزہ لیتے ہیں اور اس کے ان پوشیدہ رازوں سے پردہ اٹھاتے ہیں جو آج بھی اس قوم کی پہچان ہیں۔

ایک ایسے دور میں جہاں زندگی کی رفتار ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے، مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ جنوبی کوریا میں صدیوں پرانی بدھ مت کی تعلیمات آج بھی لوگوں کو سکون اور راستہ دکھا رہی ہیں۔ میں نے خود محسوس کیا ہے کہ کوریا کی اس روحانی پہچان کو سمجھنے کے لیے اس کی گہرائیوں میں جھانکنا ضروری ہے تاکہ ہم اس ملک کی ثقافت اور روح کو زیادہ بہتر طریقے سے جان سکیں۔ جس طرح سے بدھ مت نے کوریا کے فن، ادب اور فن تعمیر کو متاثر کیا ہے، وہ واقعی قابلِ دید ہے۔ آج بھی جدید زندگی میں اس کی تعلیمات کس طرح لوگوں کی رہنمائی کر رہی ہیں، یہ ایک ایسا سوال ہے جو مجھے ہمیشہ اپنی طرف کھینچتا ہے۔ آج ہم اسی کورین بدھ مت کی شاندار تاریخ کے کچھ ایسے پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے جو آج بھی اس قوم کی ایک مضبوط پہچان ہیں۔

بادشاہی استقبال: بدھ مت کی آمد اور ابتدائی دور

한국 불교의 역사 - Here are three detailed image generation prompts in English, designed to adhere to your safety guide...
کوریا میں بدھ مت کی آمد ایک ایسے وقت میں ہوئی جب یہ ملک تین ریاستوں میں تقسیم تھا اور چینی ثقافت کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔ چینی سفیر 362ء میں ریاست گوگریئو (Goguryeo) پہنچے اور اپنے ساتھ بدھ مت کے صحیفے اور تصاویر لائے، جس سے اس مذہب کی کوریا میں بنیاد پڑی۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ صرف ایک نئے مذہب کی آمد نہیں تھی بلکہ ایک نئے فکری اور ثقافتی دور کا آغاز تھا جس نے کوریا کی روح کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ ساتویں صدی میں کوریا میں بدھ مت نے نمایاں ترقی حاصل کی، اور یہ ایک عوامی مذہب بننے میں کامیاب ہو گیا۔, اس دور میں مندروں اور خانقاہوں کی تعمیر شروع ہوئی اور بدھ مت کی تعلیمات کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے راہبوں نے اہم کردار ادا کیا۔ میں نے کئی بار جنوبی کوریا کے قدیم مندروں کا دورہ کیا ہے اور وہاں کی فضا میں آج بھی اس ابتدائی دور کی روحانیت اور سکون محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہی دور تھا جب کوریا نے چین کے راستے بدھ مت کی مہایانا شاخ کو اپنایا، جو بعد میں جاپان میں بھی پھیلی۔, میری رائے میں، یہ وہ بنیاد تھی جس پر آج کی کورین ثقافت کی کئی پرتیں کھڑی ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب بدھ مت صرف ایک مذہب نہیں بلکہ حکمران طبقے اور عام لوگوں کے لیے ایک مکمل طرزِ زندگی بن چکا تھا۔ اس کے اثرات صرف روحانیت تک محدود نہیں تھے بلکہ ریاست کی سماجی اور سیاسی ساخت پر بھی گہرے تھے۔

تین ریاستوں کا روحانی سفر

گوگریئو، بیکجے اور سِلا نامی تین ریاستوں نے بدھ مت کو مختلف طریقوں سے اپنایا۔ ہر ریاست نے اسے اپنی ضرورت اور ثقافت کے مطابق ڈھالا۔ گوگریئو میں یہ سب سے پہلے آیا، لیکن سِلا (Silla) ریاست میں اسے سب سے زیادہ فروغ ملا، جہاں بدھ مت نے حکمران طبقے اور عوام دونوں میں گہری جڑیں پکڑ لیں۔ یہاں تک کہ شاہی خاندانوں نے بھی بدھ مت کو اپنے ریاستی مذہب کے طور پر قبول کیا، جس سے اسے مزید تقویت ملی۔

فن اور علم کا امتزاج

بدھ مت کی آمد کے ساتھ ہی کوریا میں فن تعمیر، مجسمہ سازی، پینٹنگ اور ادب میں ایک نیا باب کھلا۔ مندروں اور بدھا کے مجسموں کی تعمیر نے فنکاروں کو ایک نیا راستہ دکھایا۔ میرا ماننا ہے کہ اگر آپ آج بھی کوریا کے پرانے مندروں کو دیکھیں تو آپ کو اس وقت کی محنت اور فنکاری کی جھلک نظر آئے گی، جو آج بھی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

سنہری دور: متحدہ سِلا اور گوریئو کا عروج

Advertisement

متحدہ سِلا (Unified Silla) کے دور میں (668-935 عیسوی) بدھ مت اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ یہ دور کورین بدھ مت کا سنہری دور کہلاتا ہے، جب فلسفے اور فنون دونوں میں بدھ مت نے نمایاں ترقی کی۔ اس وقت کے راہبوں نے چین کا سفر کیا، وہاں سے نئی تعلیمات لائے اور کوریا میں بدھ مت کو مزید مستحکم کیا۔ میں نے خود ہائینسا (Haeinsa) جیسے مندروں کے بارے میں پڑھا اور سنا ہے، جہاں تری پِٹکا کوریانا (Tripitaka Koreana) جیسے عظیم مذہبی صحیفے آج بھی محفوظ ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بدھ مت نے نہ صرف روحانیت بلکہ علم و ادب کے میدان میں بھی کوریا کو کتنا مالا مال کیا۔ گوریئو (Goryeo) خاندان (918-1392 عیسوی) کے دور میں بھی بدھ مت کو شاہی سرپرستی حاصل رہی۔ گوریئو کے بادشاہوں نے بدھ مت کی سرپرستی کی اور اسے ریاستی مذہب کے طور پر برقرار رکھا۔ اس دور میں کئی بڑے مندر اور خانقاہیں تعمیر ہوئیں جو آج بھی کوریا کی ثقافتی میراث کا حصہ ہیں۔ اس عرصے میں بدھ مت کے کئی مکاتب فکر سامنے آئے اور ان میں بحث و مباحثہ بھی ہوا، جس نے بدھ مت کے فلسفے کو مزید گہرائی دی۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ یہی وہ وقت تھا جب کوریا کی اپنی بدھ مت کی شناخت قائم ہوئی، جو چینی بدھ مت سے مختلف تھی۔

فلسفیانہ گہرائی اور مکاتب فکر

اس دور میں ہُوا اُم (Hwaeom) اور جیوڈو (Pure Land) جیسے مکاتب فکر نے بہت ترقی کی۔ ان مکاتب نے بدھ مت کی تعلیمات کو مزید قابلِ فہم بنایا اور عام لوگوں تک اس کے پیغام کو پہنچانے میں مدد کی۔ ان کی تعلیمات نے زندگی کے دکھوں سے نجات اور روشن خیالی کے حصول کے طریقوں پر زور دیا۔

شاہی سرپرستی اور عوام میں مقبولیت

متحدہ سِلا اور گوریئو کے بادشاہوں نے بدھ مت کو دل کھول کر سرپرستی فراہم کی، جس کی وجہ سے یہ مذہب عوام میں مزید مقبول ہوا۔ میرے مشاہدے کے مطابق، جب کسی مذہب کو حکومتی سطح پر پذیرائی ملتی ہے تو اس کے اثرات معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچتے ہیں۔ اسی وجہ سے بدھ مت کوریا کے ہر شعبے میں سرایت کر گیا۔

مشکلات کا سامنا: چوسن خاندان کا کنفیوشس اثر

جب 1392ء میں چوسن (Joseon) خاندان برسرِ اقتدار آیا تو بدھ مت کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ چوسن خاندان نے کنفیوشس مت کو ریاستی مذہب کے طور پر اپنایا اور بدھ مت پر کئی پابندیاں لگائی گئیں۔ مندروں کو شہروں سے دور پہاڑوں پر منتقل کیا گیا اور راہبوں کو معاشرتی طور پر کمتر سمجھا جانے لگا۔ میرا ذاتی طور پر یہ ماننا ہے کہ یہ کورین تاریخ کا ایک ایسا موڑ تھا جہاں روحانیت کو سیاسی ترجیحات کی وجہ سے بہت قربانیاں دینی پڑیں۔ لیکن اس کے باوجود بدھ مت پوری طرح ختم نہیں ہوا بلکہ پہاڑوں میں چھپ کر اور زیادہ مضبوط ہو گیا، جہاں راہبوں نے اپنی تعلیمات اور روایات کو خفیہ طور پر جاری رکھا۔ اس دور میں بدھ مت کے پیروکاروں نے اپنی وفاداری اور عقیدے کا امتحان دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب بدھ مت کے حقیقی پیروکار صرف ظاہری رسومات سے ہٹ کر اس کی بنیادی تعلیمات پر زیادہ توجہ دینے لگے۔ میں نے سنا ہے کہ کس طرح کچھ راہبوں نے اس مشکل دور میں بھی اپنی روحانی مشقوں کو جاری رکھا اور نئی نسلوں کو علم منتقل کیا۔ ان کی جدوجہد نے بدھ مت کو آئندہ نسلوں تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

پابندیوں کا دور اور روحانیت کی بقا

کنفیوشس مت کے عروج نے بدھ مت کے لیے ایک مشکل دور پیدا کیا۔ مندروں کو شہروں سے باہر منتقل کیا گیا اور راہبوں کو معاشرتی حیثیت سے محروم کر دیا گیا۔ تاہم، اس دوران بدھ مت نے ایک اندرونی طاقت حاصل کی اور روحانی مشقوں پر زیادہ توجہ دی جانے لگی۔

جدید جنگوں میں کردار

جاپانی حملوں کے دوران چوسن دور کے راہبوں نے ملک کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا۔ میرا خیال ہے کہ یہ ایک ایسا وقت تھا جب بدھ مت کے پیروکاروں نے ثابت کیا کہ ان کا مذہب صرف روحانیت تک محدود نہیں بلکہ ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ بھی رکھتا ہے۔

بدھ مت کی بازگشت: جدید دور کی بیداری

Advertisement

بیسویں صدی کے آغاز میں جاپانی قبضے کے دوران بدھ مت کو پھر ایک نئے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ جاپانی بدھ مت کو کوریا میں رائج کرنے کی کوششیں کی گئیں، جس سے کورین بدھ مت کی اپنی شناخت خطرے میں پڑ گئی۔ لیکن کوریا کی آزادی کے بعد، ایک بار پھر بدھ مت نے اپنی جڑیں مضبوط کیں اور ایک نئی بیداری کا آغاز ہوا۔ آج، میں نے خود دیکھا ہے کہ جنوبی کوریا میں بدھ مت ایک بار پھر لوگوں کی زندگیوں کا حصہ بن رہا ہے، خاص طور پر نوجوانوں میں۔ یہ صرف ایک مذہب نہیں رہا بلکہ ایک ثقافتی اور روحانی تحریک بن چکا ہے، جو لوگوں کو اندرونی سکون اور ذہنی ہم آہنگی فراہم کرتا ہے۔ لوگ روزمرہ کی زندگی کے تناؤ سے چھٹکارا پانے کے لیے مراقبہ اور بدھ مت کی تعلیمات کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ میں اکثر کوریا میں نئے بدھسٹ مراکز کو دیکھتا ہوں جو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیمات فراہم کر رہے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مذہب کتنا متحرک ہے۔ یہ بیداری صرف مندروں تک محدود نہیں بلکہ شہروں میں، یونیورسٹیوں میں اور حتیٰ کہ دفاتر میں بھی اس کی گونج سنائی دیتی ہے۔

جاپانی قبضے کا اثر

جاپانی قبضے کے دوران کورین بدھ مت کو جاپانی بدھ مت کے ماتحت کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ لیکن کورین راہبوں اور پیروکاروں نے اپنی منفرد روایات کو بچانے کے لیے جدوجہد کی، جس نے ان کی شناخت کو برقرار رکھا۔

جدید کوریا میں روحانیت کی تلاش

آج کے جدید کوریا میں، جہاں مادیت پرستی کا رجحان بڑھ رہا ہے، بدھ مت لوگوں کو ذہنی سکون اور روحانیت کا راستہ دکھا رہا ہے۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بہت سے غیر ملکی بھی کوریا آ کر بدھ مت کی تعلیمات سے متاثر ہو رہے ہیں۔

تعلیمات کا نچوڑ: امن اور ہم آہنگی کی راہ

بدھ مت کی بنیادی تعلیمات میں دکھ، اس کے اسباب، دکھ سے نجات اور نجات کا راستہ شامل ہیں۔ یہ چار عظیم سچائیاں ہیں جن پر بدھ مت کا پورا فلسفہ مبنی ہے۔ میرے خیال میں یہ تعلیمات آج بھی اتنی ہی مؤثر ہیں جتنی کہ صدیوں پہلے تھیں۔ جب میں نے پہلی بار ان تعلیمات کے بارے میں پڑھا تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ صرف مذہب نہیں بلکہ زندگی گزارنے کا ایک عملی طریقہ ہیں۔ بدھ مت صبر، ہمدردی، اور عدم تشدد پر زور دیتا ہے۔ یہ دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے اور اندرونی امن حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ مراقبہ اس مذہب کا ایک اہم حصہ ہے، جس کے ذریعے لوگ اپنے ذہن کو پرسکون کرتے ہیں اور خود شناسی حاصل کرتے ہیں۔ میں نے خود کئی بار مراقبہ کی مشق کی ہے اور اس کے فوائد محسوس کیے ہیں۔ یہ تناؤ کو کم کرنے اور ذہنی وضاحت حاصل کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ بدھ مت کے پیروکار یہ مانتے ہیں کہ نروان (Nirvana) حاصل کرنے کا راستہ آٹھ نکاتی (Eightfold Path) ہے جس میں صحیح سوچ، صحیح عمل اور صحیح کوشش شامل ہیں۔, یہی وہ راستے ہیں جو انسان کو دکھوں سے نجات دلا کر حقیقی خوشی کی طرف لے جاتے ہیں۔

دکھ سے نجات کا راستہ

بدھ مت کی تعلیمات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ زندگی دکھوں سے بھری ہے، لیکن ان دکھوں سے نجات ممکن ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی خواہشات پر قابو پانا ہوتا ہے اور خود غرضی کو ترک کرنا ہوتا ہے۔

مراقبہ اور ذہنی سکون

한국 불교의 역사 - Prompt 1: The Arrival of Buddhism in Ancient Goguryeo**
مراقبہ بدھ مت کا ایک اہم ستون ہے، جس کے ذریعے لوگ اپنے ذہن کو یکسو کرتے ہیں اور گہرے سکون کی حالت تک پہنچتے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ یہ کہتا ہے کہ مراقبہ آپ کو اپنی اندرونی دنیا کو سمجھنے میں بہت مدد دیتا ہے۔

کوریا میں بدھ مت: چند اہم جھلکیاں

کوریا میں بدھ مت نے مختلف ادوار میں مختلف شکلیں اختیار کیں۔ ذیل میں ایک مختصر جدول پیش کیا جا رہا ہے جو اس کے اہم ادوار اور ان کی خصوصیات کو نمایاں کرتا ہے۔

دور اہم خصوصیات اہم اثرات
تین ریاستوں کا دور (372-668 عیسوی) بدھ مت کی چین سے آمد؛ حکمران طبقات کی سرپرستی؛ مندروں کی ابتدائی تعمیر۔ معاشرتی اور سیاسی ڈھانچے پر ابتدائی اثرات؛ فنون اور ادب کی بنیاد۔
متحدہ سِلا دور (668-935 عیسوی) بدھ مت کا سنہری دور؛ فلسفے اور فنون میں عروج؛ کئی مکاتب فکر کا ارتقاء؛ تری پِٹکا کوریانا جیسے عظیم کام۔ کوریا کی منفرد بدھ مت کی شناخت کا قیام؛ ثقافتی اور علمی ترقی۔
گوریئو دور (918-1392 عیسوی) شاہی سرپرستی جاری؛ بدھ مت ریاستی مذہب؛ مندروں اور خانقاہوں کی وسیع پیمانے پر تعمیر۔ معاشرتی اور سیاسی زندگی میں بدھ مت کی گہری جڑیں؛ مختلف بدھسٹ فرقوں کا پھیلاؤ۔
چوسن دور (1392-1910 عیسوی) کنفیوشس مت کا عروج؛ بدھ مت پر پابندیاں اور مشکلات؛ پہاڑی مندروں میں بقا۔ بدھ مت کا اندرونی طور پر مضبوط ہونا؛ مزاحمت اور روحانی جدوجہد کا دور۔
جدید دور (1910 – حال) جاپانی قبضے کے بعد بیداری؛ شہری علاقوں میں نئے مراکز کا قیام؛ نوجوانوں میں مقبولیت۔ روحانیت کی بحالی؛ ذہنی سکون اور مراقبہ کی طرف رجحان؛ ثقافتی احیاء۔
Advertisement

ثقافتی اثرات: کورین زندگی کا حصہ

میں نے خود دیکھا ہے کہ بدھ مت نے کوریا کی ثقافت پر کتنا گہرا اثر ڈالا ہے۔ کورین فنِ تعمیر، خاص طور پر مندروں کی بناوٹ، اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ مندر صرف عبادت گاہیں نہیں بلکہ فن کے شاہکار بھی ہیں جو صدیوں پرانی تاریخ اور عقیدے کو بیان کرتے ہیں۔ کورین پینٹنگز، شاعری، اور حتیٰ کہ روزمرہ کی زندگی میں بھی بدھ مت کی جھلک نظر آتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں پہلی بار کوریا گیا تھا تو مجھے وہاں کی سکون بخش موسیقی اور روایتی رقص میں ایک روحانی گہرائی محسوس ہوئی تھی، جو بدھ مت کی تعلیمات سے متاثر تھی۔ ہَن اوک (Hanok) نامی روایتی کورین گھروں کی ساخت میں بھی بعض اوقات بدھ مت کے اصولوں کی سادگی اور فطرت سے قربت کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ، کورین تہواروں میں بھی بدھ مت کے اثرات نمایاں ہیں۔ جیسے کہ لَینٹَرن فیسٹیول (Lantern Festival) جو بدھا کی سالگرہ کے موقع پر منایا جاتا ہے، وہ رنگ برنگی لالٹینوں سے روشن ہوتا ہے اور امن و خوشحالی کا پیغام دیتا ہے۔ یہ تہوار صرف ایک مذہبی رسم نہیں بلکہ ایک ثقافتی جشن بھی ہے جس میں ہر عمر کے لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

فنِ تعمیر اور مندر

کوریا کے مندر، جیسے بُلگُکسا (Bulguksa) اور سوکگورام (Seokguram) گروٹو، عالمی ورثہ میں شامل ہیں اور بدھ مت کے فن تعمیر کے شاہکار ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان عمارتوں کو دیکھ کر اس دور کے لوگوں کی عقیدت اور فنکارانہ صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔

تہوار اور رسومات

لَینٹَرن فیسٹیول جیسے تہوار بدھ مت کی تعلیمات کو زندہ رکھتے ہیں اور لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں۔ ان تہواروں میں رنگ، روشنی اور موسیقی کا امتزاج ایک خاص ماحول پیدا کرتا ہے۔

بدھ مت اور آج کا نوجوان: روحانیت کی نئی راہیں

Advertisement

آج کے جدید کوریا میں، جہاں ٹیکنالوجی اور تیزی سے بدلتی زندگی کا غلبہ ہے، نوجوانوں میں بدھ مت میں نئی دلچسپی پیدا ہو رہی ہے۔ میں نے یہ خود دیکھا ہے کہ بہت سے نوجوان اب ذہنی سکون اور زندگی کے گہرے معانی کی تلاش میں بدھ مت کے مراکز کا رخ کر رہے ہیں۔ وہ مراقبہ کی کلاسز میں شامل ہوتے ہیں، مندروں میں رضاکارانہ خدمات انجام دیتے ہیں، اور بدھ مت کی تعلیمات کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ یہ کہتا ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی بدھ مت سے متعلق مواد کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، جہاں لوگ اپنی روحانی جستجو اور تجربات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ بدھ مت اب محض ایک قدیم مذہب نہیں رہا بلکہ ایک ایسا فلسفہ بن گیا ہے جو جدید دور کے مسائل جیسے تناؤ، اضطراب، اور بے چینی کا حل پیش کرتا ہے۔ نوجوانوں کو یہ پیغام بہت متاثر کرتا ہے کہ خوشی اور سکون باہر کی دنیا میں نہیں بلکہ اپنے اندر موجود ہیں۔ کوریا کے بہت سے مندر اب ایسے پروگرام پیش کر رہے ہیں جو خاص طور پر نوجوانوں کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں، جن میں ٹیمپل سٹے پروگرامز (Temple Stay Programs) شامل ہیں، جہاں لوگ چند دنوں کے لیے مندروں میں رہ کر راہبوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور مراقبہ سیکھتے ہیں۔

ٹیکنالوجی اور روحانیت کا امتزاج

جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے، کورین بدھ مت اب آن لائن مراقبہ کی کلاسز اور تعلیمی مواد بھی فراہم کر رہا ہے، جس سے نوجوانوں کے لیے اس تک رسائی آسان ہو گئی ہے۔ یہ ایک بہترین مثال ہے کہ کیسے ایک قدیم مذہب خود کو جدید دور کے مطابق ڈھال سکتا ہے۔

ذہن سازی اور خود آگہی

آج کے نوجوان اپنی ذہنی صحت کے بارے میں زیادہ باشعور ہو گئے ہیں اور بدھ مت کی ذہن سازی (Mindfulness) کی تکنیکیں انہیں اپنے جذبات کو سمجھنے اور اندرونی سکون حاصل کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ اس سے ان کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں آتی ہیں۔

مستقبل کی طرف: کورین بدھ مت کا عالمی کردار

کورین بدھ مت صرف کوریا تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی پہچان بنا رہا ہے۔ میں نے کئی بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمینارز میں کورین راہبوں کو دیکھا ہے جو اپنی تعلیمات اور تجربات کو دنیا کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ کوریا کے بدھ مت مراکز اب غیر ملکیوں کے لیے بھی دروازے کھول رہے ہیں جو بدھ مت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں یا مراقبہ سیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بہت مثبت قدم ہے جو کورین ثقافت اور روحانیت کو دنیا بھر میں پھیلا رہا ہے۔ میرا یقین ہے کہ کورین بدھ مت کی منفرد تعلیمات اور اس کا پُرامن فلسفہ آج کی دنیا کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب دنیا کو امن، ہم آہنگی، اور باہمی احترام کے پیغام کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ کورین بدھ مت اس پیغام کو مؤثر طریقے سے دنیا تک پہنچا سکتا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح کوریا کی نرم طاقت (Soft Power) میں بدھ مت کا کردار بڑھ رہا ہے، جہاں یہ مذہب محض ایک تاریخی ورثہ نہیں بلکہ ایک زندہ اور فعال روحانی قوت کے طور پر ابھر رہا ہے۔

بین الاقوامی تعاون اور فروغ

کوریا کی سنگوول سوسائٹی (Sungwol Society) جیسے ادارے ہندوستان اور نیپال میں بدھ مت کے مقامات کی پیدل یاترا کا اہتمام کر رہے ہیں، جو عالمی سطح پر بدھ مت کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

امن اور ماحولیات کا پیغام

کورین بدھ مت ماحولیاتی تحفظ اور امن کے فروغ پر بھی زور دیتا ہے، جو آج کی دنیا کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ یہ تعلیمات لوگوں کو فطرت سے قریب کرتی ہیں اور انہیں دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کی ترغیب دیتی ہیں۔

بات ختم کرتے ہوئے

میں نے اس سفر میں جو کچھ بھی سیکھا اور محسوس کیا، اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ کورین بدھ مت صرف ایک قدیم مذہب نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے جو آج بھی لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو روشن کر رہی ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ تبدیلی کے ہر دور میں، چاہے وہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو، روحانیت اور اندرونی سکون کی تلاش ہی ہماری بہترین رہنمائی کر سکتی ہے۔ مجھے سچ میں لگتا ہے کہ یہ تعلیمات آج کی تیز رفتار اور مشکل بھری دنیا میں بھی اتنی ہی ضروری ہیں جتنی کہ صدیوں پہلے تھیں۔

Advertisement

جاننے کے لیے مفید معلومات

1. کوریا میں روحانی تجربہ حاصل کرنے کے لیے ‘ٹیمپل سٹے پروگرامز’ بہترین آپشن ہیں، جہاں آپ مندر میں رہ کر راہبوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن سکتے ہیں اور مراقبہ سیکھ سکتے ہیں۔ یہ میرا ذاتی مشورہ ہے، میں نے خود ایسے تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔

2. اگر آپ ذہنی سکون کی تلاش میں ہیں، تو بدھ مت کی مراقبہ کی تکنیکیں آپ کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں۔ آپ کو صرف چند منٹ نکالنے ہوں گے اور آپ اپنی زندگی میں ایک مثبت تبدیلی محسوس کریں گے۔ آج کل تو آن لائن بھی بہت سے کورسز دستیاب ہیں۔

3. کوریا کے قدیم بدھ مندروں جیسے بُلگُکسا (Bulguksa) اور ہائینسا (Haeinsa) کا دورہ ضرور کریں تاکہ کورین فن تعمیر اور تاریخ کی گہرائیوں کو سمجھ سکیں۔ ان جگہوں کی خاموشی اور خوبصورتی آپ کے دل کو چھو لے گی۔

4. کورین بدھ مت تہواروں میں شرکت کرکے آپ وہاں کی ثقافت اور روایات کو قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر ‘لالٹین فیسٹیول’ (Lantern Festival) ایک ناقابل فراموش تجربہ ہوتا ہے جو آپ کو کوریا کی روحانیت اور جشن کا ایک خوبصورت امتزاج دکھائے گا۔

5. بدھ مت کی بنیادی تعلیمات جیسے صبر، ہمدردی اور عدم تشدد کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں شامل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ نہ صرف آپ کو اندرونی سکون دیں گے بلکہ آپ کے رشتوں کو بھی مضبوط بنائیں گے۔ یہ ایک چھوٹا سا قدم ہے جو بڑی تبدیلی لا سکتا ہے۔

اہم نکات کا خلاصہ

ہم نے دیکھا کہ کوریا میں بدھ مت کا سفر 372ء میں شروع ہوا اور کیسے تین ریاستوں سے لے کر متحدہ سِلا اور گوریئو کے سنہری ادوار تک یہ مذہب عروج پر رہا۔ میں نے خود کئی بار محسوس کیا ہے کہ چوسن خاندان کے دوران کنفیوشس مت کی بالادستی کے باوجود، بدھ مت نے پہاڑوں میں پناہ لے کر اپنی شناخت کو برقرار رکھا اور مشکلات کے باوجود اور زیادہ مضبوط ہوا۔ یہ ایک ایسی مثال ہے جو ہمیں ثابت قدمی اور یقین کی طاقت سکھاتی ہے۔

آج بھی جدید کوریا میں، جہاں زندگی کی رفتار بہت تیز ہے، بدھ مت روحانی سکون اور گہرے معنی کی تلاش میں نوجوانوں سمیت ہر عمر کے لوگوں کو ایک راستہ دکھا رہا ہے۔ اس کی تعلیمات نہ صرف اندرونی امن فراہم کرتی ہیں بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور عالمی امن کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ میرا پختہ یقین ہے کہ کورین بدھ مت کا یہ لازوال پیغام آج کی دنیا کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖

س: کوریا میں بدھ مت کی آمد اور اس کی ابتدائی مقبولیت کیسے ہوئی؟

ج: جب میں نے پہلی بار کوریا کی تاریخ کو کھوجنا شروع کیا، تو مجھے یہ جان کر بہت دلچسپی ہوئی کہ بدھ مت چوتھی صدی عیسوی میں تین مملکتوں کے دور (Three Kingdoms Period) میں چین سے کوریا پہنچا تھا۔ سب سے پہلے 372 عیسوی میں گوگوریو (Goguryeo) کی بادشاہت میں اسے ریاستی مذہب کے طور پر اپنایا گیا، اور پھر جلد ہی بیکجے (Baekje) اور سِلا (Silla) کی مملکتوں میں بھی اس کا چرچا ہونے لگا۔ مجھے خاص طور پر یہ پہلو بہت متاثر کن لگا کہ کس طرح بادشاہوں نے بدھ مت کی تعلیمات کو اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے اور قوم کو متحد کرنے کے لیے استعمال کیا۔ آپ سوچیں، ایک ایسے وقت میں جب ریاستیں ایک دوسرے سے لڑ رہی تھیں، بدھ مت نے ایک مشترکہ ثقافتی اور اخلاقی بنیاد فراہم کی جس نے لوگوں کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ، قدیم کورین مذاہب جیسے شمن پرستی (Shamanism) کے ساتھ اس کا ہم آہنگ ہونا بھی اس کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ بنا؛ پہاڑ جو پہلے روحوں کا مسکن سمجھے جاتے تھے، اب بدھ مت کے خوبصورت مندروں کی آماجگاہ بن گئے۔ یہ ایک ایسا تاریخی سفر ہے جس نے کوریا کی روح کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

س: کورین بدھ مت کو دوسرے بدھ مت مذاہب سے کیا چیز منفرد بناتی ہے؟

ج: میرے تجربے اور تحقیق کے مطابق، کورین بدھ مت کی سب سے بڑی انفرادیت اس کا “تونگبلگیو” (Tongbulgyo) یا “باہم مربوط بدھ مت” کا فلسفہ ہے، جس میں مختلف مکاتبِ فکر کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مجھے یہ تصور واقعی بہت دلکش لگا کیونکہ یہ تنازعات کو حل کرنے اور اتحاد پر زور دیتا ہے۔ جب میں نے کورین بدھ مت کے بارے میں پڑھا، تو میں نے محسوس کیا کہ یہاں “سیون” (Seon) بدھ مت – جسے مغرب میں زین بدھ مت کے نام سے جانا جاتا ہے – پر خاص زور دیا جاتا ہے، جو مراقبہ اور باطنی تجربے کے ذریعے روشن خیالی حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔ جوگیے (Jogye) اور تیگو (Taego) جیسی آرڈرز سیون کی اہم نمائندہ ہیں۔ مزید برآں، کورین بدھ مت میں وونہیو (Wonhyo) جیسے عظیم علماء کی تعلیمات بھی شامل ہیں، جنہوں نے “ایک ذہن” (One Mind) کے تصور کو فروغ دیا، جس کا مطلب ہے کہ تمام چیزیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ یہ صرف نظریاتی باتیں نہیں، بلکہ جب آپ کوریا کے مندروں میں جاتے ہیں، تو آپ کو ان کی خاموش خوبصورتی اور مراقبہ کا ماحول اس منفرد اندازِ فکر کی جیتی جاگتی مثال محسوس ہوتی ہے۔

س: آج کے جدید جنوبی کوریا میں بدھ مت کی کیا اہمیت ہے؟

ج: آج کے برق رفتار جنوبی کوریا میں، جہاں ٹیکنالوجی اور ترقی عروج پر ہے، مجھے یہ دیکھ کر حیرت اور خوشی دونوں ہوتی ہے کہ بدھ مت آج بھی کس قدر متعلقہ ہے۔ میرے خیال میں، بدھ مت اب صرف ایک مذہبی شناخت نہیں رہا، بلکہ یہ ثقافت اور فلسفے کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے جو لوگوں کو ذہنی سکون فراہم کرتا ہے۔ بہت سے لوگ “ٹیمپل سٹے” (Temple Stay) پروگرامز کے ذریعے مندروں میں وقت گزارتے ہیں، جہاں وہ مراقبہ کرتے ہیں اور قدیم رسومات میں حصہ لیتے ہیں تاکہ مصروف زندگی کی تھکن سے چھٹکارا پا سکیں۔ میں نے خود ایسے لوگوں سے بات کی ہے جنہوں نے بتایا کہ یہ تجربہ انہیں زندگی کی حقیقتوں سے جوڑتا ہے اور اندرونی سکون دیتا ہے۔ فن تعمیر سے لے کر مقامی تہواروں تک، بدھ مت کی جھلک کوریا کے ہر گوشے میں نظر آتی ہے۔ میرے لیے، یہ ایک خوبصورت مثال ہے کہ کیسے قدیم حکمت آج بھی انسان کو جدید دور کے چیلنجز کا سامنا کرنے اور پرسکون زندگی گزارنے میں مدد دے سکتی ہے۔

Advertisement